كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
(اے افراد نسل انسای !) تم کس طرح اللہ سے (اور اس کی عبادت سے) انکار کرسکتے ہو جبکہ حالت یہ ہے کہ تمہار اوجود نہ تھا، اس نے زندی بخشی پھر وہی ہے جو زندگی کے بعد موت طاری کرتا ہے اور موت کے بعد دوبارہ زندگی بخشے گا، اور بالآخر تم سب کو اسی کے حضور لوٹنا ہے
اس آیت میں استفہام تعجب، زجر و توبیخ اور انکار کے معنی میں ہے۔ یعنی تم کیسے اللہ تعالیٰ کا انکار کرتے ہو جو تمہیں عدم میں سے وجود میں لایا اور اس نے تمہیں انواع و اقسام کی نعمتوں سے نوازا پھر وہ تمہارے وقت پورا ہونے پر تمہیں موت دے گا اور قبروں کے اندر تمہیں جزا دے گا پھر قیامت کے برپا ہونے پر تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا۔ پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وہ تمہیں تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ پس جب تم اللہ تعالیٰ کے تصرف میں ہو، اس کی تدبیر اور اس کے احسان کے تحت زندگی بسر کر رہے ہو، اور تم (دنیا میں) اس کے احکام دینیہ اور اس کے بعد (آخرت میں) اس کے قانون جزا و سزا کے تحت آتے ہو، تب کیا تمہیں یہ لائق ہے کہ تم اس کا انکار کرو؟ کیا تمہارا یہ رویہ ایک بڑی جہالت اور ایک بڑی حماقت کے سوا کچھ اور ہے ؟ اس کے برعکس تمہارے لئے مناسب تو یہ تھا کہ تم اس سے ڈرتے، اس کا شکر ادا کرتے، اس پر ایمان لاتے، اس کے عذاب سے خوف کھاتے اور اس کے ثواب کی امید رکھتے۔