إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
(اس کی تدبیر اس وقت سامنے آئی) جب اللہ نے کہا تھا کہ : اے عیسیٰ میں تمہیں صحیح سالم واپس لے لوں گا، (٢٣) اور تمہیں اپنی طرف اٹھا لوں گا، اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ان ( کی ایذا) سے تمہیں پاک کردوں گا۔ اور جن لوگوں نے تمہاری اتباع کی ہے، ان کو قیامت کے دن تک ان لوگوں پر غالب رکھوں گا جنہوں نے تمہارا انکار کیا ہے۔ (٢٤) پھر تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے، اس وقت میں تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔
﴿إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾” جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ ! میں تجھے پورا لینے والا ہوں، اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں۔“ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور اپنے رسول عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف آسمانوں پر اٹھا لیا اور کسی اور شخص پر آپ کی مشابہت ڈال دی۔ جس آدمی کو آپ کا ہم شکل بنایا گیا تھا، دشمنوں نے اسے پکڑ کر صلیب پر چڑھایا اور قتل کردیا۔ اس طرح وہ ایک عظیم جرم کے مرتکب ہوئے کیونکہ ان کی نیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو شہید کرنے کی تھی اور اپنے خیال میں وہ اس کوشش میں کامیاب بھی رہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ﴾ (النساء :4؍ 157) ” نہ تو انہوں نے اسے قتل کیا، نہ سولی پر چڑھایا، بلکہ ان کے لئے وہی صورت بنا دی گئی تھی“ اس آیت سے اللہ تعالیٰ کا مخلوق سے اوپر ہونا، اور عرش پر حقیقتاً مستوی ہونا ثابت ہوتا ہے، جیسے کہ قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت ہوتا ہے جنہیں اہل سنت نے تسلیم کیا ہے اور اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ غالب، قوی اور زبردست ہے۔ جس کا ایک مظہر بنی اسرائیل کا عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا پختہ ارادہ کرلینے اور پروگرام بنا لینے اور اس میں کوئی ظاہری رکاوٹ نہ ہونے کے باوجود، اس کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہنا ہے جیسے اللہ کا ارشاد ہے : ﴿وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ﴾ (المائدہ :5؍ 110) ” اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تم سے باز رکھا، جب تم ان کے پاس دلیلیں لے کر آئے تھے۔ پھر ان میں سے جو کافر تھے۔ انہوں نے ہا تھا کہ بجز کھلے جادو کے یہ اور کچھ بھی نہیں۔“ اللہ تعالیٰ حکیم ہے، جو ہر چیز کو اس کے مناسب مقام پر رکھتا ہے۔ بنی اسرائیل کو شبہ میں رکھنے میں بھی اس کی عظیم حکمت پوشیدہ تھی۔ چنانچہ وہ شبہ میں پڑگئے جیسے ارشاد ہے: ﴿وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا﴾ (النساء :4؍107) ” یقین جانو، عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کرنے والے ان کے بارے میں شک میں ہیں انہیں اس کا کوئی یقین نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے۔ اتنا یقینی ہے کہ انہوں نے اسے قتل نہیں کیا۔“ اس کے بعد فرمایا : ﴿وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ﴾” اور تیرے تابع داروں کو کفاروں کے اوپر رکھنے والا ہوں، قیامت کے دن تک“ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے کافروں کے خلاف ان کے مومنوں کی مدد فرمائی۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام سے نسبت رکھنے والے نصاریٰ یہودیوں پر ہمیشہ غالب رہے، کیونکہ یہود کی نسبت عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کی اتباع سے قریب تر تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو مسلمان عیسیٰ علیہ السلام کے حقیقی متبع بنے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ اور دیگر کفار کے خلاف مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ البتہ کسی کسی زمانے میں عیسائی وغیرہ کافر مسلمانوں پر غالب آتے ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت پوشیدہ ہے اور یہ مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے پہلو تہی کرنے کی سزا ہے۔ ﴿ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ﴾ ” پھر تم سب کا (یعنی تمام مخلوقات) کا لوٹنا میری ہی طرف ہے۔“ ﴿فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ﴾ ” پس میں ہی تمہارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کروں گا۔“ ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ وہی حق پر ہے اور دوسرے سب غلطی پر ہیں۔ یہ سب دعوے ہیں جنہیں دلیل کی ضرورت ہے۔