سورة الروم - آیت 36

وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوا بِهَا ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جب ہم لوگوں کو اپنی رحمت کا مزرہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر نازاں ہوجاتے ہیں اور جب ان کے اپنے کیے کی وجہ سے ان پر کوئی مسیبت آجاتی ہے تو ناگہاں وہ ناامید ہوجاتے ہیں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ نرمی اور سختی کے حالات میں اکثر لوگوں کی فطرت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ صحت، فراخی اور نصرت وغیرہ کے ذریعے سے انہیں اپنی رحمت کا مزا چکھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی نعمت پر اس کا شکر ادا کرتے ہوئے فرحت کا اظہار نہیں کرتے بلکہ تکبر کے ساتھ اتراتے ہوئے خوش ہوتے ہیں ﴿ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ﴾ ” اور اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچے“ یعنی اگر ان کا حال ایسا ہوتا ہے جس سے ان کو تکلیف پہنچتی ہو ﴿ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ﴾ ” ان کے عملوں کے سبب جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجے“ یعنی اپنے کرتوتوں کے باعث ﴿إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ﴾ ” تو ناامید ہوجاتے ہیں۔“ یعنی فقر اور بیماری وغیرہ کے دور ہونے کے بارے میں مایوس ہوجاتے ہیں۔ یہ مایوسی ان کی جہالت اور عدم معرفت کے باعث ہے۔