وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ وَمَا هُم بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُم مِّن شَيْءٍ ۖ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
اور کافر اہل ایمان سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے طریق پر چلو اور تمہارے گناہ ہم اٹھائیں گے حالانکہ ہی کافر ان کے گناہوں سے کچھ بھی اٹھانے والے نہیں ہیں اور یہ بالکل جھوٹ بول رہیے ہیں
اللہ تبارک و تعالیٰ کفار کی بہتان طرازی اور اہل ایمان کو اپنے دین کی طرف ان کی دعوت کا ذکر کرتا ہے۔ اس ضمن میں اہل ایمان کو آگاہ کیا ہے کہ وہ کفار سے دھوکہ کھائیں نہ ان کی چالوں میں آئیں۔ چنانچہ فرمایا ﴿ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا ﴾ ’’اور جو کافر ہیں وہ مومنوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے طریق کی پیروی کرو۔“ یعنی اپنے دین یا دین کے کچھ حصے کو ترک کر دو اور ہمارے دین میں ہماری پیروی کرو ہم تمام معاملے کی ذمہ داری لیتے ہیں ﴿ وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ﴾ اور ہم تمہاری خطاؤں کو اپنے اوپر لے لیں گے حالانکہ یہ معاملہ ان کے ہاتھ میں نہیں ہے، لہٰذا فرمایا: ﴿ وَمَا هُم بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُم مِّن شَيْءٍ ﴾ حالانکہ وہ ان کے گناہوں کا کچھ بھی بوجھ اٹھانے والے نہیں۔ یعنی وہ کم یا زیادہ، کچھ بھی خطائیں اپنے اوپر نہیں لے سکتے۔ خطاؤں کو اپنے ذمے لینے والا خواہ راضی ہی کیوں نہ ہو، وہ کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور اللہ تعالیٰ بندے کو اپنے حکم کے بغیر اپنے حق میں تصرف کی اجازت نہیں دیتا اور اس کا حکم ﴿ أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ﴾)النجم: 53؍38 )” کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔“ کے اصول پر مبنی ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ وَمَا هُم بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُم مِّن شَيْءٍ ﴾ سے یہ وہم بھی ہوسکتا ہے کہ اہل ایمان کو کفر وغیرہ کی طرف دعوت دینے کا کفار کو صرف وہی گناہ ہوگا جس کا انہوں نے ارتکاب کیا دوسروں کے گناہوں میں ان کا کوئی حصہ نہیں خواہ وہ دوسروں کے گناہوں کا سبب ہی کیوں نہ بنے ہوں۔۔۔