وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
اور ہم نصیحت کی باتیں پہیم انکے پاس پہنچا چکے ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں
﴿وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ﴾ یعنی ہم نے اپنی بات کو لگاتار طریقے سے ان تک پہنچایا اور ان پر اپنی رحمت اور لطف و کرم کی بنا پر اسے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل فرمایا ﴿لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ﴾ ” تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔“ جب ان پر آیات الہٰی بتکرار نازل ہوں گی اور بوقت ضرورت ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح دلائل نازل ہوں گے۔ پس کتاب اللہ کا ٹکڑوں میں نازل ہونا، ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا لطف و کرم ہے۔ تب وہ اسی بات پر کیوں اعتراض کرتے ہیں جس میں ان کی بھلائی ہے؟ قصہء موسیٰ علیہ السلام سے بعض فوائد اور عبرتوں کا استنباط * آیات الہٰی، اللہ تعالیٰ کے نشانات عبرت اور گزشتہ قوموں میں اس کے ایام سے صرف اہل ایمان ہی فائدہ اٹھاتے اور روشنی حاصل کرتے ہیں۔ بندہ مومن اپنے ایمان کے مطابق عبرت حاصل کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انہی کی خاطر گزشتہ قوموں کے قصے بیان کرتا ہے۔ رہے دیگر لوگ تو اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی پروا نہیں، ان کے نصیب میں روشنی ہے نہ ہدایت۔ * اللہ تبارک و تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے لئے اسباب مہیا کردیتا ہے اور اسے یک لخت منصۂ شہود پر نہیں لاتا، بلکہ بتدریج آہستہ آہستہ وجود میں لاتا ہے۔ * ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ مستضعفین خواہ کمزوری اور محکومی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہوں ان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ سستی اور مایوسی کا شکار ہو کر اپنے حق کے حصول اور بلند مقاصد کے لئے جدوجہد کو چھوڑدیں خاص طور پر جبکہ وہ مظلوم ہوں۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل جیسی کمزور اور محکوم قوم کو فرعون اور اس کے سرداروں کی غلامی سے نجات دی، پھر انہیں زمین میں اقتدار بخشا اور انہیں اپنے شہروں کا مالک بنایا۔ * ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جب تک قوم مقہورومحکوم رہتی ہے اور اپنے حقوق حاصل کرتی ہے نہ ان کا مطالبہ کرتی ہے اس کے دین و دنیا کا معاملہ درست نہیں ہوتا اور نہ وہ دین میں امامت سے سرفراز ہوتی ہے۔ * حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ پر اللہ تعالیٰ کا لطف وکرم تھا کہ اس نے اس بشارت کے ذریعے سے ان کی مصیبت کو آسان کردیا کہ وہ ان کو ان کا بیٹا واپس لوٹائے گا اور اسے رسول بنائے گا۔ * یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندے کے لئے بعض سختیاں مقدر کردیتا ہے۔ تاکہ مآل کار اسے ان شدائد سے بڑھ کر سرور حاصل ہو یا ان سے بڑا کوئی شر دور ہو، جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو شدید حزن و غم میں مبتلا کیا پھر یہی حزن و غم ان کے لئے اپنے بیٹے تک پہنچنے کا وسیلہ بنا جس سے ان کا دل مطمئن اور آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں اور ان کی فرحت و مسرت میں اضافہ ہوا۔ * ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ مخلوق کا طبعی خوف ایمان کے منافی ہے نہ ایمان کو زائل کرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کو خوف کے مقام پر خوف لاحق ہوا۔ * اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے اور سب سے بڑی چیز جس سے ایمان میں اضافہ اور یقین کی تکمیل ہوتی ہے، مصائب کے وقت صبر اور شدائد کے وقت ثابت قدمی اور استقامت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَوْلَا أَن رَّبَطْنَا عَلَىٰ قَلْبِهَا لِتَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ (القصص : 28 ؍ 10) ” اگر ہم اس کی ڈھارس نہ بندھاتے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے“ یعنی تاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے ایمان میں اضافہ ہو اور ان کا دل مطمئن ہو۔ * اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر سب سے بڑی نعمت اور بندے کے معاملات میں اس کی طرف سے سب سے بڑی اعانت یہ ہے کہ وہ اس کو اپنی طرف سے ثابت قدمی اور استقامت سے سرفراز کرے، خوف اور اضطراب کے وقت اس کے دل کو قوت عطا کرے کیونکہ اسی صورت میں بندہ مومن صحیح قول و فعل پر قادر ہوسکتا ہے اس کے برعکس جو شخص پریشانی، خوف اور اضطراب کا شکار ہے اس کے افکار ضائع اور اس کی عقل زائل ہوجاتی ہے اور وہ اس حال میں اپنے آپ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکتا۔ * اگر بندے کو اس حقیقت کی معرفت حاصل ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر اور اس کے وعدے کا نفاذ لازمی امر ہے، تب بھی وہ اسباب کو ترک نہ کرے اور یہ چیز، اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی خبر پر ایمان کے منافی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ سے وعدہ فرمایا تھا کہ انہیں ان کا بیٹا لوٹادے گا۔ بایں ہمہ وہ اپنے بیٹے کو واپس لینے کے لئے کوشش کرتی رہیں انہوں نے اپنی بیٹی کو بھیجا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیچھے پیچھے جائے اور دیکھے کہ وہ کہاں جاتا ہے۔ * اس قصہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ عورت کا اپنی ضروریات کے لئے گھر سے باہر نکلنا اور مردوں سے ہم کلام ہونا جائز ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن اور صاحب مدین کی بیٹیوں کے ساتھ پیش آیا۔ * اس قصہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کفالت اور رضاعت پر اجرت لینا جائز ہے اور جو اس طرح کرتا ہے، اس کے لئے دلیل ہے۔ * ان آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اپنے کمزور بندے کو، جسے وہ اپنے اکرام و تکریم سے سرفراز کرنا چاہتا ہے، اسے اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور واضح دلائل کا مشاہدہ کراتا ہے جن سے اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کو ان کی والدہ کے پاس لوٹادیا تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ * اس قصہ سے ثابت ہوا کہ ایسے کافر کو، جو کسی معاہدے اور عرف کی بنا پر ذمی ہو، قتل کرنا جائز نہیں کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کافر قبطی کے قتل کو گناہ شمار کیا اور اس پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جو کوئی لوگوں کو ناحق قتل کرتا ہے، وہ ان جابروں میں شمار ہوتا ہے جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ * نیز جو کوئی لوگوں کو ناحق قتل کرتا ہے اور بزعم خود زمین میں اصلاح کرتا ہے اور اہل معاصی کو ہیبت زدہ کرتا ہے، وہ جھوٹا اور فساد برپا کرنے والا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قبطی کا قول نقل فرمایا: ﴿ إِن تُرِيدُ إِلَّا أَن تَكُونَ جَبَّارًا فِي الْأَرْضِ وَمَا تُرِيدُ أَن تَكُونَ مِنَ الْمُصْلِحِينَ﴾ (القصص 28؍ 19) ” تو زمین میں صاحب جبر و استبداد بن کررہنا چاہتا ہے، تو اصلاح کرنا نہیں چاہتا۔“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ قول انکار کے لئے نہیں بلکہ تحقیق و تقریر کے لئے نقل فرمایا ہے۔ * کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کو اس کے بارے میں خبر دینا کہ اس کے خلاف کوئی منصوبہ بن رہا ہے، تاکہ وہ اس کے شر سے بچ سکے، چغلی اور غیبت کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ بلکہ بسا اوقات ایسا کرنا واجب ہے جیسا کہ اس درباری شخص نے خیر خواہی کے طور پر اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بچانے کے لئے دربار فرعون کے منصوبے کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آگاہ کیا تھا۔ * جب کسی جگہ قیام کرنے میں جان و مال کا خطرہ ہو تو انسان کو اپنے آپ کو ہلاکت میں نہیں ڈالنا چاہیے اور نہ اپنے آپ کو ہلاکت کے حوالے کرنا چاہیے بلکہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے وہاں سے نکل جانا چاہیے، جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے فرار ہوئے۔ * جب انسان کو دو برائیوں کا سامنا ہوا اور ان میں سے کسی ایک کو اختیار کئے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو وہ خفیف تر برائی کو اختیار کرے جس میں قدرے زیادہ سلامتی ہو۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام کا معاملہ دو امور کے مابین تھا : 1۔ مصر میں رہتے، مگر اس صورت میں یقیناً قتل کردئیے جاتے۔ 2۔ یا دور کسی شہر میں چلے جاتے جس کا راستہ بھی انہیں معلوم نہ تھا اور ان کے رب کے سوا کوئی راہنمائی کرنے والا بھی ان کے ساتھ نہ تھا، مگر اس صورتحال میں، مصر میں رہنے کی نسبت، مصر چھوڑ جانے میں سلامتی کی زیادہ توقع تھی۔ * علم میں شغف رکھنے والے کو جب کبھی علمی بحث کی ضرورت پیش آئے، دو اقوال میں سے کوئی قول اس کے نزدیک راجح نہ ہو تو وہ اپنے رب سے ہدایت کی استدعا کرے کہ وہ اس کی راہ صواب کی طرف راہنمائی کرے، اپنے دل میں حق کو مقصود مطلوب بنائے رکھے اور حق ہی کو تلاش کرے اور جس کا یہ حال ہو اللہ تعالیٰ اس کو کبھی خائب و خاسر نہیں کرتا۔ جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام نے مصر سے نکل کر مدین کی طرف رخ کیا تو کہنے لگے : ﴿قَالَ عَسَىٰ رَبِّي أَن يَهْدِيَنِي سَوَاءَ السَّبِيلِ﴾ (القصص : 28 ؍ 22) ” امید ہے میرا رب سیدھے راستے کی طرف میری رہنمائی کرے گا۔ “ * ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ مخلوق پر رحم کرنا اور جان پہچان رکھنے والے یا اجنبی لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا انبیائے کرام کا اخلاق ہے، پیا سے مویشیوں کو پانی پلانا اور کسی عاجز اور لاچار کی مدد کرنا احسان کے زمرے میں آتا ہے۔ * اپنے حال کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا مستحب ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ کو بندے کے احوال کا علم ہوتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کو بندے کی عاجزی اور اس کی تذلل و مسکنت کا اظہار پسند ہے، جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : ﴿ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ﴾ (القصص : 28 ؍ 24)” اے میرے رب ! جو بھلائی بھی تو مجھ پر نازل کرے، میں اس کا ضرورت مند ہوں۔ “ * شرم و حیاء، خاص طور پر باعزت لوگوں میں، ایک قابل مدح صفت ہے۔ * حسن سلوک کا اچھا بدلہ دینا گزشتہ قوموں کا بھی وتیرہ رہا ہے۔ * بندہ جب کوئی کام اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے کرتا ہے اور بغیر کسی قصد و ارادے کے اس کو اس کام کا اچھا بدلہ عطا ہوجاتا ہے تو وہ اس پر قابل ملامت نہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے، صاحب مدین سے، اپنی نیکی کا بدلہ قبول کیا جو انہوں نے کسی عوض کے لئے کی تھی نہ وہ اپنے دل میں کسی عوض کے منتظر تھے۔ * اس قصہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ ملازم رکھنا مشروع ہے نیز بکریاں وغیرہ چرانے یا کسی ایسے ہی کام کی اجرت ادا کرنا جائز ہے جسے کرنے پر وہ خود قادر نہ ہو، البتہ اس کا دارومدار عرف عام پر ہے۔ * کسی کام کی اجرت میں کوئی منفعت حاصل کرنا جائز ہے خواہ یہ منفعت نکاح کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو۔ * کسی ایسے شخص سے اپنی بیٹی کے رشتے کی درخواست کرنا جسے وہ پسند کرتا ہو تو یہ جائز ہے اس پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ * بہترین نوکر اور مزدور وہ ہے جو طاقتور اور امانت دار ہو۔ * اپنے خادم اور نوکر سے حسن سلوک سے پیش آنا اور اس سے پر مشقت کام نہ لینا مکارم اخلاق میں شمار ہوتا ہے۔ کیونکہ فرمایا : ﴿وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللّٰـهُ مِنَ الصَّالِحِينَ﴾ (القصص :28 ؍ 27) ” میں تمہیں مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتا اور تم مجھے ان شاء اللہ نیک آدمی پاؤ گے۔ “ * آیت کریمہ : ﴿وَاللّٰـهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ﴾ (القصص : 28؍ 28) سے ثابت ہوتا ہے کہ بغیر کسی گواہی کے اجرت کا معاہدہ کرنا جائز ہے۔ * اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پر واضح نشانات اور ظاہری معجزات جاری کئے، مثلاً عصا کا سانپ بن جانا، ہاتھ کا بغیر کسی عیب کے سفید ہوجانا اور اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو فرعون کی اذیتوں اور سمندر میں غرق ہونے سے بچانا۔ * انسان کے لئے بدترین سزا یہ ہے کہ وہ برائی میں لوگوں کا امام ہو اور یہ امامت آیات الہٰی اور روشن دلائل کی مخالفت کے مطابق ہوتی ہے جس طرح بہترین نعمت جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو سرفراز فرماتا ہے، یہ ہے کہ وہ اسے نیکی کے راستے میں امامت کے مرتبے پر فائز کرے اور اسے لوگوں کے لئے ہادی اور مہدی بنادے۔ * ان آیات کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر واضح دلیل ہے کیونکہ حضرت رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس قصہ کو تفصیل کے ساتھ اصل واقعات کے عین مطابق بیان کیا جس کے ذریعے سے آپ نے رسولوں کی تصدیق اور حق مبین کی تائید کی، حالانکہ آپ ان واقعات کے وقت حاضر تھے نہ آپ ان مقامات میں سے کسی مقام کا مشاہدہ کیا تھا، آپ نے ان امور کے بارے میں کچھ پڑھا تھا نہ کسی سے درس لیا تھا اور نہ کسی اہل علم کی مجلس میں بیٹھے تھے یہ تو صرف رحمٰن و رحیم کی طرف سے رسالت اور وحی ہے جسے بے پایاں احسان کے مالک، اللہ کریم نے نازل کیا تاکہ وہ اس کے ذریعے سے جاہل اور انبیاء ورسل سے غافل قوم کو اس کے برے انجام سے ڈرائے۔ اللہ تعالیٰ کے درود و سلام ہوں اس ہستی پر جس کی مجرد خبر ہی آگاہی کرتی ہے کہ بلاشبہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہے اور جس کے مجرد اوامر و نواہی عقلوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ یہ احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، کیونکر نہ ہوں جبکہ اولین و آخرین کی خبر، اس کی لائی ہوئی خبر اور وحی کی صحت و صداقت کی تائید و تصدیق کرتی ہے۔ وہ شریعت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ رب العالمین سے لے کر مبعوث ہوئے ہیں، وہ اخلاق فاضلہ جو آپ کی جبلت میں رکھ دئیے گئے، صرف اسی ہستی کے لائق اور اسی کے لئے مناسب ہیں جو اخلاق کی بلند ترین درجہ پر فائز ہو جس کے دین اور امت کو فتح مبین سے سرفراز کیا گیا ہو۔ یہاں تک کہ آپ کا دین اس مقام تک پہنچ گیا جہاں تک سورج طلوع ہوتا اور غروب ہوتا ہے۔ آپ کی امت نے بڑے بڑے شہروں کو شمشیر و سناں کے ذریعے سے اور لوگوں کے دلوں کو علم و ایمان کے ذریعے سے فتح کرلیا۔ تمام معاند قومیں اور شاہان کفار اسلام کے خلاف متحد رہے اور اس کی روشنی کو بجھانے اور روئے زمین سے اس کو نیست و نابود کرنے کے لئے سازشیں کرتے رہے مگر دین ظاہر اور غالب ہو کر رہا، دین بڑھتا ہی رہا اس کے دلائل و براہین ظاہر ہوتے رہے۔ ہر وقت دین کی ایسی نشانیاں ظاہر ہوتی رہی ہیں جو تمام جہانوں کے لئے عبرت، اہل علم کے لئے ہدایت اور فراست مندوں کے لئے روشنی اور بصیرت ہیں۔ والحمد اللہ وحدہ