قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
(اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔
اس آیت میں اللہ کی محبت کا وجوب، اس کی علامات، اس کا نتیجہ اور فوائد ذکر کئے گئے ہیں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ﴾ ”کہہ دیجیے ! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو“ اگر تم اس اونچے مرتبے کا دعویٰ رکھتے ہو، جس سے بلند کوئی مرتبہ نہیں تو اس کے لئے صرف دعویٰ کافی نہیں، بلکہ یہ دعویٰ سچا ہونا چاہئے۔ اس کے سچا ہونے کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہر حال میں ہو، اقوال میں بھی ہو اور افعال میں بھی، عقاید میں بھی ہو اور اعمال میں بھی، ظاہر میں بھی ہو اور باطن میں بھی۔ پس جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتا ہے، اللہ کی محبت اس کے دعویٰ کی تصدیق کرتی ہے، اللہ اس سے محبت رکھتا ہے اور اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے، اس پر رحمت فرماتا ہے، اسے تمام حرکات و سکنات میں راہ راست پر قائم رکھتا ہے۔ جس نے رسول کی اتباع نہ کی وہ اللہ سے محبت رکھنے والا نہیں۔ کیونکہ اللہ کی محبت کا تقاضا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے۔ جب اتباع موجود نہیں، تو یہ محبت نہ ہونے کی دلیل ہے۔ اس صورت میں اگر وہ رسول سے محبت رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کا دعویٰ جھوٹا ہے اور اگر محبت موجود بھی ہو تو اس کی شرط (اتباع) کے بغیر ایسی محبت بے کار ہے۔ سب لوگوں کو اسی آیت کی ترازو پر تولنا چاہئے۔ جتنی کسی میں اتباع رسول ہوگی، اسی قدر اس میں ایمان اور اللہ کی محبت کا حصہ ہوگا اور جس طرح اتباع میں کمی ہوگی، اسی قدر ایمان اور اللہ کی محبت میں نقص ہوگا۔