يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِن سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدًا ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ
وہ دن یاد رکھو جس دن کسی بھی شخص نے نیکی کا جو کام کیا ہوگا، اسے اپنے سامنے موجود پائے گا، اور برائی کا جو کام کیا ہوگا اس کو بھی ( اپنے سامنے دیکھ کر) یہ تمنا کرے گا کہ کاش اس کے اور اس کی بدی کے درمیان بہت دور کا فاصلہ ہوتا۔ اور اللہ تمہیں اپنے ( عذاب) سے بچاتا ہے، اور اللہ بندوں پر بہت شفقت رکھتا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ اپنے علم اور قدرت کا ذکر فرماتا ہے، تو اس میں ضمناً اعمال کی جزا و سزا بھی شامل ہوتی ہے۔ جو قیامت کے دن واقع ہوگی۔ اس دن ہر شخص کو اس کے اعمال کی پوری جزا و سزا ملے گی۔ اس لئے فرمایا :﴿ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا﴾” جس دن ہر شخص اپنی کی ہوئی نیکیوں کو موجود پائے گا“ یعنی اس کی نیکیاں مکمل طور پر محفوظ ہوں گی۔ ان میں ذرہ برابر بھی کمی نہ آئے گی۔ جیسے ارشاد ہے :﴿ فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ﴾ (الزلزال :99؍7) ” پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی، وہ اسے دیکھ لے گا“ (خیر) ایک جامع لفظ ہے جس میں اللہ کے قریب کرنے والا ہر نیک عمل شامل ہے۔ خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ جس طرح (سوء) ایک جامع لفظ ہے جس میں اللہ کو ناراض کرنے والا ہر چھوٹا بڑا برا عمل شامل ہے۔ ﴿وَمَا عَمِلَتْ مِن سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدً ﴾” اور جو اس نے برائیاں کی ہوں گی، آرزو کرے گا، کاش اس کے اور ان (برائیوں) کے درمیان بہت ہی دوری ہوتی“ وہ بے انتہا افسوس اور شدید ترین غم کی وجہ سے یہ آرزو کرے گا۔ بندے کو ان گناہوں سے بچنا اور ڈرنا چاہئے جن کے نتیجے میں اسے شدید ترین غم برداشت کرنا پڑے گا۔ اب ان گناہوں کو چھوڑنا ممکن ہے، اس لئے فوراً ترک کردینا چاہئے ورنہ اس وقت وہ کہے گا ﴿ يَا حَسْرَتَىٰ عَلَىٰ مَا فَرَّطتُ فِي جَنبِ اللَّـهِ ﴾(الزمر :39؍56)” ہائے افسوس ! میں نے اللہ کی جناب میں کوتاہی کی !“ ﴿ يَوْمَئِذٍ يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَعَصَوُا الرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّىٰ بِهِمُ الْأَرْضُ ﴾(النساء:4؍42)” جنہوں نے کفر کیا اور رسول کی نافرمانی کی اس دن تمنا کریں گے کاش ! زمین ان کو نگل کر برابر ہوجائے“﴿ وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا﴾ (الفرقان :25؍27-28) ” اس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا، کاش ! میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ اختیار کی ہوتی ! ہائے افسوس ! کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔“ ﴿حَتَّىٰ إِذَا جَاءَنَا قَالَ يَا لَيْتَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِينُ ﴾(الزخرف :43؍ 38) ” یہاں تک کہ جب وہ ہمارے پاس آئے گا تو کہے گا، کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق اور مغرب کی دوری ہوتی، تو تو بڑا برا ساتھی ہے۔“ قسم ہے اللہ کی ! ہر خواہش نفس کو اور لذت کو ترک کردینا۔ اگرچہ اس جہان میں اسے ترک کرنا نفس کو کتنا دشوار محسوس ہوتا ہے۔ ان عذابوں کو جھیلنے سے اور ان رسوائیوں کو برداشت کرنے سے بہت زیادہ آسان ہے۔ لیکن بندہ ظالم اور نادان ہونے کی وجہ سے صرف حاضرو موجود پر نظر رکھتا ہے۔ اگر اس کے پاس کامل عقل ہو تو ان اعمال کے انجام کو دیکھے، پھر وہ عمل کرے جس کا دونوں جہان میں فائدہ ہو۔ اور اس کام سے اجتناب کرے جو دونوں جہان میں نقصان کا باعث ہو۔ اس کے بعد اللہ نے ہم پر شفقت و رحمت کرتے ہوئے دوبارہ اپنی ذات سے ڈرایا ہے تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے دل سخت نہ ہوجائیں۔ تاکہ ترغیب بھی ہو، جس کے نتیجے میں امید اور عمل صالح حاصل ہو۔ اور ترہیب بھی ہو جس کے نتیجے میں خوف حاصل ہو اور گناہ چھوٹ جائیں۔ چنانچہ فرمایا :﴿وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّـهُ نَفْسَهُ ۗ وَاللَّـهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ ﴾” اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے“ ہم اس سے دعا کرتے ہیں کہ ہم پر احسان فرما کر ہمیشہ اپنے خوف سے نوازے رکھے، تاکہ ہم وہ کام نہ کریں جن سے وہ ناراض ہوتا ہے۔