قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۖ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ ۚ وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَن يَشَاءُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّأُولِي الْأَبْصَارِ
بلاشبہ تمہارے لیے ان دو گروہوں میں (کلمہ حق کی فتح مندیوں کی) بڑی ہی نشانی تھی، جو (بدر کے میدان میں) ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے۔ اس وقت ایک گروہ تو (مٹھی بھر بے سروسامان مسلمانوں کا تھا جو) اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا۔ دوسرا منکرین حق کا تھا جنہیں مسلمان اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ ان سے دو چند ہیں (بایں ہمہ منکرین حق کو شکست ہوئی) اور اللہ جس کسی کو چاہتا ہے، اپنی نصرت سے مددگاری پہنچاتا ہے۔ بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جو چشم بینا رکھتے ہیں، اس معاملہ میں بڑی عبرت ہے
اللہ نے بتایا کہ کافر دنیا میں مغلوب ہونے کے ساتھ ساتھ قیامت کے دن جمع کر کے جہنم کی طرف ہانک دیئے جائیں گے جو برا ٹھکانہ ہے اور ان کے بداعمال کا برا بدلہ ﴿قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ﴾” یقیناً تمہارے لئے نشانی تھی“ یعنی عظیم عبرت تھی۔﴿ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا﴾ ”ان دو جماعتوں میں جو گتھ گئی تھیں۔“ یہ غزوہ بدر کے موقع پر ہوا۔ ﴿فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ﴾” ایک جماعت اللہ کی راہ میں لڑ رہی تھی۔“ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام تھے۔﴿ وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌ﴾” اور دوسرا گروہ کافروں کا تھا۔“ یعنی کفار قریش جو فخر و تکبر کے ساتھ لوگوں کو دکھانے کے لئے اور اللہ سے روکنے کے لئے آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں جماعتوں کو بدر کے میدان میں اکٹھا کردیا۔ مشرکوں کی تعداد مومنوں سے کئی گنا تھی۔ اس لئے فرمایا ﴿يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ﴾” وہ انہیں اپنی آنکھوں سے اپنے سے دگنا دیکھتے تھے۔“ یعنی مومن دیکھ رہے تھے کہ کافر تعداد میں ان سے بہت زیادہ ہیں۔ یہ اضافہ دگنے سے زیادہ تھا۔ (یعنی کفار کی تعداد تین گنا سے زائد تھی) اللہ نے مومنوں کی مدد کی تو انہوں نے کفار کو شکست دی، ان کے سرداروں کو تہ تیغ کیا اور بہت سے افراد کو قید کرلیا۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جو کوئی اللہ کے دین کی مدد کرتا ہے، اللہ اس کی مدد کرتا ہے اور جو کفر کرتا ہے اللہ اسے چھوڑ دیتا ہے۔ اس میں آنکھوں والوں کے لئے عبرت ہے۔ یعنی جن کی بصیرت اور عقل کامل ہے، جس کی وجہ سے وہ دیکھ رہے ہیں کہ جس جماعت کی مدد کی گئی ہے وہی اہل حق ہیں اور دوسرے باطل پر ہیں۔ ورنہ محض ظاہری اسباب، سامان اور تعداد پر نظر رکھنے والا یہی فیصلہ کرسکتا ہے کہ اس چھوٹی سی جماعت کا اتنی بڑی جماعت پر فتح پانا بالکل محال اور ناممکن ہے۔ لیکن بصارت سے نظر آنے والے ان اسباب کے پیچھے ایک عظیم ترسبب بھی ہے۔ جسے بصیرت، ایمان اور توکل علی اللہ کی نظر ہی دیکھ سکتی ہے اور وہ سبب ہے اللہ کا اپنے مومن بندوں کو تقویت بخشنا اور اپنے کافر دشمنوں کے خلاف ان کی مدد کرنا۔