إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَن تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُم مِّنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ
جن لوگوں نے (ایمان و راست بازی کی جگہ) کفر کی راہ اختیار کی ہے تو (وہ یاد رکھیں) انہیں اللہ کی پکڑ سے نہ تو ان کی دولت بچا سکے گی (جس کی کثرت کا انہیں گھمنڈ ہے) نہ آل اولاد، (جس دنیا کی مصیبتوں مشکلوں میں ان کے کام آتی رہتی ہے) یہ وہ لوگ ہیں کہ آتش عذاب کا ایندھن بن کر رہیں گے
اللہ تعالیٰ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرنے والے، اس کے دین اور اس کی کتاب کا انکار کرنے والے، اپنے کفر اور گناہوں کی وجہ سے سزا اور سخت عذاب کے مستحق ہیں۔ وہاں انہیں اپنے مالوں اور اولادوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اگرچہ دنیا میں وہ آنے والی مصیبتوں کا ان کے ذریعہ سے مقابلہ کرلیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے ﴿نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ﴾(سبا :34؍35) ” ہمارے مال اور ہماری اولاد میں زیادہ ہیں ہمیں عذاب نہیں ہوگا۔“ قیامت کے دن انہیں ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کی انہیں بالکل توقع نہ ہوگی۔ ﴿وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ﴾ (الزمر :39؍48) ” ان کے کمائے ہوئے اعمال کا برا انجام ان کے سامنے آجائے گا اور انہیں وہ عذاب گھیر لے گا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے، اللہ کے ہاں مال اور اولاد کی قدر نہیں، بلکہ بندے کو اللہ پر ایمان لانے کا اور نیک اعمال کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ جیسے ارشاد ہے : ﴿وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُم بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِندَنَا زُلْفَىٰ إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَـٰئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ﴾ (سبا :34؍ 37) ” تمہارے مال اور تمہاری اولاد وہ چیز نہیں جو تمہیں ہمارا قرب بخشتی ہیں بلکہ جو ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کئے انہی لوگوں کو اپنے اعمال کا دگنا بدلے ملے گا اور وہ بالا خانوں میں امن سے رہیں گے“ اللہ نے بیان فرمایا ہے کہ کافر جہنم کا ایندھن ہیں، یعنی ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ یہ قانون کہ کافروں کو ان کے مالوں یا اولادوں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکے گا، گزشتہ امتوں میں بھی اللہ کا یہی قانون جاری رہا ہے۔ فرعون، اس سے پہلے اور اس کے بعد آنے والے سب جابر، سرکش، مالوں اور لشکروں والے، ان سب کے ساتھ یہی ہوا کہ جب انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا، رسولوں کی لائی ہوئی تعلیمات تسلیم کرنے سے انکار کیا اور ان سے دشمنی کی، اللہ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں پکڑ لیا، یہ اس کا عدل تھا، ظلم نہیں۔ جو کوئی ایسا کام کرے جو سزا کا مستوجب ہے تو اللہ اسے سخت سزا دے دیتا ہے۔ عذاب کا یہ سبب کفر بھی ہوسکتا ہے اور دوسرے گناہ بھی جن کی مختلف قسمیں اور بہت سے مراتب ہیں۔