وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ ۖ وَأَن يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اور بوڑھی عورتیں جنہیں نکاح کی اب امید نہیں رہی، اگر اپنے (اوپر کے) کپڑے (یعنی ادروغیرہ) اتاردیں تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں، بشرطیکہ اپنے بناؤ، چناؤ کا دکھاوامنظور نہ ہو۔ اور اگر اس سے بھی احتیاط رکھیں تو یہ ان کے لیے زیادہ بہتر بات ہوگی اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔
﴿وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ﴾ ’’اور بڑی بوڑھی عورتیں۔‘‘ یعنی وہ عورتیں جو شہوت اور تعلقات زن و شوہر میں رغبت نہ رکھتی ہوں۔ ﴿اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا﴾ جو نکاح کی خواہش مند ہوں نہ کوئی مرد ان کے ساتھ نکاح کی رغبت رکھتا ہو اور یہ اس کے بوڑھی ہونے کی وجہ سے ہو کہ کسی کو اس میں کوئی رغبت ہو نہ وہ رغبت رکھتی ہو یا اتنی بد صورت ہو کہ کسی کو اس میں رغبت نہ ہو۔ ﴿فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ﴾ ’’تو ان پر کوئی گناہ اور حرج نہیں‘‘ ﴿ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ ﴾ کہ وہ اپنا ظاہری لباس یعنی چادر وغیرہ اتار دیں جس کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے عورتوں کو حکم دیا تھا : ﴿وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ﴾ (النور : 24؍31) ’’اور وہ اپنے سینوں پر اپنے دوپٹوں کی بکل مارے رہیں۔‘‘ پس ان خواتین کے لئے اپنے چہروں کو ننگا کرنا جائز ہے کیونکہ اب ان کے لئے یا ان کی طرف سے کسی فتنے کا ڈر نہیں۔ چونکہ ان خواتین کے اپنی چادر اتار دینے میں نفی حرج سے بعض دفعہ یہ وہم بھی لا حق ہوسکتا ہے کہ اس اجازت کا استعمال ہر چیز کے لئے ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس احتراز کو اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے دور کیا ہے : ﴿غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ ﴾ ’’وہ اپنی زینت کو ظاہر کرنے والی نہ ہوں۔‘‘ یعنی ظاہری لباس اور چہرے کے نقاب کی زینت کو لوگوں کو نہ دکھائیں اور نہ زمین پر پاؤں مار کر چلیں کہ ان کی زینت ظاہر ہو کیونکہ عورت کی مجرد ز ینت خواہ پردے ہی میں کیوں نہ ہو اور خواہ اس میں عدم رغبت ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ فتنہ کی باعث ہے اور دیکھنے والے کو گناہ میں مبتلا کرسکتی ہے۔ ﴿وَأَن يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ﴾ ’’اور اگر وہ احتیاط کریں تو ان کے لیے زیادہ بہتر ہے۔‘‘ استعفاف سے مراد ہے، ان اسباب کو استعمال کر کے جو عفت کا تقاضا کرتے ہیں، عفت کا طلب گار ہونا، مثلاً نکاح کرنا اور ان امور کو ترک کرنا جن کی وجہ سے فتنہ میں پڑنے کا خوف ہو۔ ﴿وَاللّٰـهُ سَمِيعٌ﴾ اللہ تعالیٰ تمام آوازوں کو سنتا ہے۔ ﴿عَلِيمٌ ﴾ اور وہ نیتوں اور مقاصد کو بھی خوب جانتا ہے، اس لئے ان عورتوں کو ہر قول فاسد اور قصد فاسد سے بچنا چاہیے۔