سورة البقرة - آیت 276

يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اللہ سود کو مٹاتا ہے اور خیرات کو بڑھاتا ہے اور (یاد رکھو) تمام ایسے لوگوں کو جو نعمت الٰہی کے ناسپاس اور نافرمان ہیں، اس کی پسندیدگی حاصل نہیں ہوسکتی

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

شرک کے علاوہ جن گناہوں کے بارے میں قرآن و حدیث میں دوزخ میں ہمیشہ رہنے کی سزا مذکور ہے۔ ان کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ زیادہ بہتر قول یہ ہے کہ جن اعمال کا نتیجہ اللہ نے دائمی جہنم مقرر کیا ہے یہ اس کا سبب ہیں۔ لیکن سبب کے ساتھ اگر کوئی مانع نہ ہو تو نتیجہ ضرور ظاہر ہوا کرتا ہے۔ قرآن و حدیث اور اجماع سے ثابت ہے کہ توحید اور ایمان جہنم میں ہمیشہ رہنے سے مانع ہیں۔ یعنی یہ عمل ایسا ہے کہ اگر بندہ توحید کا حامل نہ ہوتا تو یہی عمل اسے جہنم میں ہمیشہ رکھنے کا باعث بن سکتا تھا۔ اس کے بعد فرمایا﴿ يَمْحَقُ اللَّـهُ الرِّبَا ﴾” اللہ سود کو مٹاتا ہے۔“ یعنی اسے بھی اور اس کی برکت کو بھی ذاتی اور صفاتی طور پر ختم کرتا ہے۔ یہ آفات کا باعث بنتا ہے اور برکت چھن جانے کا سبب ہوتا ہے۔ اگر اس (حرام کمائی) سے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو اسے اس کا کوئی ثواب نہیں ملے گا، بلکہ یہ اسے جہنم میں لے جائے گا۔﴿ وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ﴾ اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔“ یعنی جس مال سے صدقہ دیا جائے اس میں برکت نازل فرماتا ہے اور ثواب میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جزا و سزا عمل کی جنس سے ہوتی ہے۔ سود خور لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور ان کے مال غیر شرعی طریقے سے لیتا ہے اس لئے اس کی سزا یہ ہے کہ اس کا مال تباہ ہوجائے اور جو شخص لوگوں پر کسی بھی انداز سے احسان کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ سخی ہے۔ جس طرح اس شخص نے اس کے بندوں پر احسان کیا ہے، اللہ بھی اس پر احسان کرتا ہے۔ ﴿وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ﴾ ” اور اللہ نہیں دوست رکھتا کسی ناشکرے کو۔“ جو اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے اور اللہ کے واجب کئے ہوئے صدقے اور زکوٰۃ ادا نہیں کرتا، اور اللہ کے بندے اس کے شر سے محفوظ نہیں۔﴿ أَثِيمٍ﴾ ” اور گناہ گار کو“ یعنی اس نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے جو اسے سزا ملنے کا باعث ہے۔