سورة النور - آیت 2

الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اگر عورت اور مرد زناکریں تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو تازیانوں کی سزا دو۔ اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہو کہ (قانون الٰہی کی تعمیل کرتے ہوئے) ان (مجرموں) کے لیے نرمی اور مہربانی کا جذبہ تمہارا ہاتھ پکڑے۔ نیز چاہیے کہ سزا دیتے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موقع پر موجود رہے (یعنی علانیہ سزا دی جائے) (٣)۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

آیت میں مذکوریہ حکم غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کے لیے ہے کہ ان کو سوسو کوڑے مارے جائیں۔ البتہ شادی شدہ زنا کار ہو تو سنت صحیحہ مشہورہ دلالت کرتی ہے کہ اس کی حد رجم (یعنی سنگسار کرنا) ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات سے منع کیا ہے کہ زنا کار مردوزن پر حد جاری کرتے وقت ہم میں رحم و شفقت کا ایسا جذبہ پیدا ہو جو ہمیں ان پر حد قائم کرنے سے روک دے۔ خواہ یہ رحم طبعی ہو یا قرابت یا دوستی وغیرہ کی وجہ سے ہو۔ ایمان اس رحم کی نفی کا موجب ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کو قائم کرنے سے مانع ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی حقیقی رحمت تو زانی پر حد نافز کرنے میں ہے۔ اگر زانی پر تقدیر کا فیصلہ جاری ہونے پر ہمیں رحم آئے تو یہ اور بات ہے مگر نفاذ حد کے پہلو سے ہمیں اس پر رحم نہیں آنا چاہیے، نیز اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ زنا کاروں پر حد جاری کرتے وقت اہل ایمان کی ایک جماعت موجود ہوتاکہ حد کا نفاذ مشتہر ہو، مجرموں کی رسوائی ہو، مجرم اس گھناؤنے جرم سے باز رہیں اور لوگ بالفعل نفاذ حد کا مشاہدہ کریں، کیونکہ شریعت کے احکام کے بالفعل مشاہدے سے شریعت کا علم زیادہ پختہ اور اس کا فہم راسخ ہوجاتا ہے اور مشاہدہ کرنے والا منزل صواب کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ پس اس میں کوئی اضافہ کیا جاتا ہے نہ کمی۔ واللہ اعلم۔