سورة المؤمنون - آیت 100

لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کہ زندگی کے جو موقعے میں نے کھو دیے شاید (اس دفعہ) ان میں نیک کام کرسکوں۔ حکم ہوگا ہرگز نہیں، یہ محض ایک کہنے کی بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے اب ایسا ہونے ولا انہیں ان لوگوں کے (مرے) پیچھے ایک آڑ ہے جو اس دن تک رہے گی کہ (دوبارہ) اٹھائے جائیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ كَلَّا ﴾ ” ہرگز نہیں، یعنی اب وہ دنیا میں واپس لوٹ سکیں گے نہ ان کو مہلت عطا ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ صادر کردیا ہے کہ وہ دنیا میں واپس نہیں جائیں گے۔ ﴿ إِنَّهَا ﴾ یعنی ان کی وہ بات جس میں وہ دنیا میں واپس جانے کی تمنا کرتے ہیں ﴿ كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا﴾ مجرد زبان سے نکلی ہوئی بات ہے جو اپنے قائل کو حسرت و ندامت کے سوا کچھ فائدہ نہ دے گی۔۔۔۔ علاوہ بریں وہ اس میں بھی سچا نہیں ہے کیونکہ اگر اسے دنیا میں واپس بھیج بھی دیا جائے تو دوبارہ وہی کام کرے گا جن سے اس کو روکا گیا تھا۔ ﴿ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴾ ” اور ان کے سامنے برزخ ہے ان کے دوبارہ اٹھائے جانے تک“ ( بَرْزَخٌ) دو چیزوں کے درمیان رکاوٹ کو کہا جاتا ہے۔ یہاں وہ حجاب مراد ہے جو دنیا اور آخرت کے درمیان حائل ہے۔ اس برزخ میں اللہ تعالیٰ کے مطیع بندے نعمتوں سے سرفراز ہوں گے اور نافرمانوں کو عذاب دیا جائے گا موت کی ابتدا یعنی ان کو قبروں میں رکھے جانے سے لے کر قیامت کے روز دوبارہ اٹھائے جانے کے وقت تک۔ پس ان کو کو چاہیے کہ وہ اس کے لیے تیاری اور اس کا سامان کریں۔