سورة المؤمنون - آیت 72

أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) کیا وہ سمجھتے ہیں تو ان سے مال و دولت کا طالب ہے؟ تیرے لیے تو تیرے پروردگار کا دیا مال ہی بہتر ہے (تو ان سے کیوں طالب زر ہونے لگا؟) وہی سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا ﴾ اے محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ان کو آپ کی اتباع سے اس چیز نے روکا ہے کہ آپ ان سے اس کام پر کوئی اجرت طلب کرتے ہیں؟ ﴿ أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُم مِّن مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُونَ ﴾ (الطور:52؍40) ” کہ ان پر تاوان کا بوجھ پڑ رہا ہے“ اور اس طرح آپ کی اطاعت سے ان کو تکلیف پہنچتی ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے اجرت اور خراج طلب کرتے ہیں؟ معاملہ یوں نہیں بلکہ ﴿ فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ﴾ ” آپ کے رب کی اجرت بہت بہتر ہے اور وہ بہترین روزی رساں ہے۔“ یہ اسی طرح کا قول ہے جس طرح انبیائے کرام علیہم السلام نے اپنی اپنی قوم سے فرمایا: ﴿ يَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ﴾ (ھود :11؍51)” اے میری قوم میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا‘‘﴿إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللّٰـهِ ﴾ (ھود :11؍29) ” میرا صلہ تو اللہ کے پاس ہے۔“ یعنی انبیائے کرام علیہم السلام کی طرف سے لوگوں کو دعوت دینے میں یہ لالچ نہیں ہوتا کہ انہیں لوگوں کی طرف سے مال و دولت حاصل ہوگا۔ وہ تو صرف خیر خواہی اور ان کے اپنے فائدے کی خاطر ان کو دعوت دیتے ہیں بلکہ انبیاء و مرسلین مخلوق کے لیے، خود ان سے بھی زیادہ خیر خواہ ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ ان کو ان کی امتوں کی طرف سے جزائے خیر عطا کرے اور تمام احوال میں ہمیں بھی ان کی اقتداء سے بہرہ مند کرے۔