سورة المؤمنون - آیت 71

وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ بَلْ أَتَيْنَاهُم بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَن ذِكْرِهِم مُّعْرِضُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اگر ایسا ہوتا کہ سچائی ان کی خواہشوں کی پیروی کرتی تو یقینا آسمان و زمین اور وہ سب جو ان میں ہے یک قلم درہم برہم ہوجاتا، ہم نے ان کے لیے ان کی نصیحت کی بات مہیا کردی تو یہ اپنی نصیحت کی بات سے گردن پھیرے ہوئے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اگر یہ کہا جائے کہ حق ان کی خواہشات نفس کے موافق کیوں نہیں تاکہ وہ ایمان لے آتے اور جلدی سے حق کی اطاعت کرتے تو اللہ تعالیٰ نے اس کا یوں جواب عطا فرمایا : ﴿ وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ ﴾ ” اگر حق (دین) ہی ان کی خواہشات کی پیروی کرنے لگ جائے تو آسمانوں اور زمین کا سارا نظام ہی درہم برہم ہوجائے۔“ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی خواہشات نفس، ظلم، کفر اور فساد پر مبنی اخلاق و اعمال سے متعلق ہوتی ہیں۔ پس اگر حق ان کی خواہشات کی پیروی کرنے لگے تو آسمان و زمین ظلم اور عدل عدم عدل کی بنا پر درست ہیں۔ ﴿ بَلْ أَتَيْنَاهُم بِذِكْرِهِمْ ﴾ ” یعنی ہم ان کے پاس یہ قرآن لے کر آئے جو ان کو ہر قسم کی بھلائی کی نصیحت کرتا ہے۔‘‘ یہ ان کا فخرو شرف ہے۔ اگر وہ اس کو قائم کریں گے تو لوگوں کی سیادت کریں گے۔ ﴿ فَهُمْ عَن ذِكْرِهِم مُّعْرِضُونَ ﴾ ” وہ اپنے ذکر ( نصیحت) سے روگردانی کر رہے ہیں“ اپنی بدبختی اور عدم توفیق کی وجہ سے ﴿ نَسُوا اللّٰـهَ فَنَسِيَهُمْ ﴾ (التوبۃ :9؍67)” انہوں نے اللہ کو بھلا دیا اور اللہ نے ان کو اپنے تئیں بھلوا دیا“ پس قرآن عظیم اور اس کو لانے والی ہستی سب سے بڑی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کی ہے مگر انہوں نے اس عظیم نعمت کو ٹھکرا دیا اور اس سے روگردانی کی کیا اس ایمان سے محرومی کے بعد اس سے بڑی کوئی حرماں نصیبی ہے ؟ اور کیا اس کے پیچھے انتہائی درجے کا خسارہ نہیں ؟