سورة المؤمنون - آیت 24

فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُرِيدُ أَن يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَنزَلَ مَلَائِكَةً مَّا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اس کی قوم کے جن سرداروں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی وہ یہ سن کر (لوگوں سے) کہنے لگے یہ آدمی کے سوا کیا ہے کہ تمہارے ہی جیسا ایک آدمی ہے؟ مگر چاہتا ہے تم پر اپنی بڑائی جتائے، اگر اللہ کو کوئی ایسی ہی بات منظور ہوتی تو کیا وہ فرشتے نہ اتار دیتا؟ (وہ ہماری ہی طرح کے ایک آدمی کو اپنا پیام بر کیوں بنانے لگا؟) ہم نے اپنے اگلے بزرگوں سے تو کوئی ایسی بات کبھی نہیں سنی۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ فَقَالَ الْمَلَأُ ﴾ پس نوح علیہ السلام کی قوم کے اشراف اور سرداروں نے معارضہ اور مخالفت کے طور پر اور ان کے اتباع سے لوگوں کو ڈراتے ہوئے کہا : ﴿ مَا هَـٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُرِيدُ أَن يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ ﴾ یعنی یہ محض تمہارے ہی جیسا آدمی ہے اور اس نے تم پر فضیلت حاصل کرنے کے لئے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تاکہ وہ سردار اور پیشواء بن سکے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس میں کون سی ایسی چیز ہے جس کی بناء پر اسے تم پر فضیلت حاصل ہو حالانکہ وہ تمہاری ہی جنس سے ہے؟ یہ معارضہ رسولوں کی تکذیب کرنے والوں میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی زبان پر اس کا شافی جواب دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ کے اس ارشاد میں ہے۔ ﴿ قَالُوا ﴾ یعنی کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا : ﴿ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍقَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَـٰكِنَّ اللّٰـهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ﴾ (ابراہیم : 14؍10،11) ’’تم اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم جیسے ہی انسان ہو، تم ہمیں ان معبودوں کی عبادت سے روکنا چاہتے ہو جن کی عبادت ہمارے آباؤ اجداد کیا کرتے تھے۔ ہمارے پاس کوئی واضح دلیل لاؤ۔ رسولوں نے ان سے کہا ہم تمہارے ہی جیسے بشر ہیں مگر اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے، نوازتا ہے۔‘‘ پس رسولوں نے ان کو آگاہ فرمایا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی عنایت ہے تم اللہ تعالیٰ پر پابندی لگا سکتے ہو نہ اس کے فضل کو ہم تک پہنچنے سے روک سکتے ہو۔ انہوں نے اپنے رسولوں سے یہ بھی کہا : ﴿ وَلَوْ شَاءَ اللّٰـهُ لَأَنزَلَ مَلَائِكَةً ﴾ ’’اور اگر اللہ چاہتا تو وہ فرشتے نازل کردیتا۔‘‘ یہ بھی ان کا مشیت الٰہی کے ساتھ معارضہ باطلہ ہے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو فرشتے نازل کرسکتا ہے مگر وہ نہایت مہربان اور بہت حکمت والا ہے۔ اس کی حکمت اور بے پایاں رحمت تقاضا کرتی ہے کہ رسول انسانوں ہی کی جنس میں سے ہو کیونکہ انسان فرشتوں سے مخاطب ہونے کی قدرت نہیں رکھتے، نیز اگر فرشتہ بھیجا جائے تو اس کا انسان ہی کی شکل میں آنا ممکن ہے۔ تب اشتباہ تو ان پر پھر بھی واقع ہوجائے گا جیسا کہ پہلے ہے۔ کفار کا قول تھا ﴿ مَّا سَمِعْنَا بِهَـٰذَا ﴾ یعنی رسول کے مبعوث ہونے کے بارے میں ہم نے نہیں سنا۔ ﴿ فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ ﴾ ’’اپنے باپ دادا کے زمانے میں۔‘‘ اور یہ کون سی دلیل ہے کہ انہوں نے اپنے آباؤ اجداد میں کسی رسول کے مبعوث ہونے کے بارے میں نہیں سنا؟ کیونکہ گزرے واقعات ان کے احاطہء علم میں نہیں، اس لئے وہ اپنی لا علمی اور جہالت کو دلیل نہ بنائیں۔ اور فرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں کسی کو رسول بنا کر نہیں بھیجا تو اس کی وجہ یا تو یہ ہوگی کہ وہ سب ہدایت پر ہوں گے تب اس صورت میں ان میں رسول بھیجنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں اور اگر وہ ہدایت پر نہ تھے تو انہیں اپنے رب کی حمد و ثناء اور اس کا شکر کرنا چاہیے کہ اس نے ان کو ایسی نعمت سے خصوصی طور پر نوازا ہے جو ان کے آباؤ اجداد کو عطا نہیں ہوئی اور نہ ان کو اس نعمت کا شعور تھا۔ دوسروں پر عدم احسان کو سبب بنا کر خود پر اللہ تعالیٰ کے احسان کی ناشکری نہ کریں۔