ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ
اور یہ (صورت حال) اس لیے ہوئی کہ اللہ رات کو دن کے اندر نمایاں کرتا ہے اور دن کو رات کے اندر (یعنی یہاں ہر گوشہ میں حالات متضاد تبدیلیل کا قانون جاری ہے) نیز اس لیے کہ اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔
وہ اللہ جس نے تمہارے لئے یہ اچھے اور انصاف پر مبنی احکام مشروع کئے ہیں، اپنی تقدیر اور تدبیر میں بہترین طریقے سے تصرف کرتا ہے، جو ﴿ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ ﴾ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ پس وہ دن کے بعد رات کو اور رات کے بعد دن کو لاتا ہے اور وہ ان دونوں میں سے ایک کو بڑھاتا اور دوسرے میں اسی حساب سے کمی کرتا رہتا ہے، پھر اس کے برعکس پہلے میں کمی کرتا ہے اور دوسرے کو بڑھاتا ہے۔ پس دن رات کی اس کمی بیشی پر موسم مترتب ہوتے ہیں اور اسی پر شب و روز اور سورج چاند کے فوائد کا انحصار ہے، جو بندوں پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں اور یہ مختلف مواسم ان کے لئے نہایت ضروری ہیں۔ ﴿ وَأَنَّ اللّٰـهَ سَمِيعٌ ﴾ ” اور اللہ سننے والا ہے۔“ بندوں کی زبان کے اختلاف اور ان کی مختلف حاجات کے باوجود وہ ان کی چیخ و پکار میں ہر ایک کی بات سنتا ہے۔ ﴿ بَصِيرٌ ﴾ ” دیکھنے والا ہے۔“ وہ رات کی تاریکی میں، ٹھوس چٹان کے نیچے، سیاہ چیونٹی کو چلتے ہوئے دیکھتا ہے۔ ﴿ سَوَاءٌ مِّنكُم مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَن جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ ﴾ (الرعد : 13؍10) ” تم میں سے کوئی شخص خواہ بلند آواز سے بات کرے یا آہستہ اور کوئی رات کے اندھیروں میں چھپا ہوا ہو یا دن کے اجالے میں چل رہا ہو اس کے لئے سب برابر ہے۔ “