لَيُدْخِلَنَّهُم مُّدْخَلًا يَرْضَوْنَهُ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَعَلِيمٌ حَلِيمٌ
وہ ضرور انہیں ایسی جگہ پہنچائے گا جس سے وہ خوشنود ہوں گے، یقینا وہ (سب کچھ کچھ) جاننے والا (اور اپنے کاموں میں) بڑا بردبار ہے۔
یہ اسی طرح واقع ہوا جس طرح اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا تھا۔ مہاجرین سابقین نے نصرت دین کی خاطر اپنا گھر بار، اولاد اور مال چھوڑ دیا، تو ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں سے بہت سے شہر فتح کروائے، انہیں لوگوں پر اقتدار و اختیار عطا کیا تو انہوں نے ان شہروں سے مال حاصل کیا اور اس مال کے ذریعے سے سب سے دولت مند ہوگئے اور ان کا حال اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مصداق ہوگیا : ﴿ لَيُدْخِلَنَّهُم مُّدْخَلًا يَرْضَوْنَهُ ﴾ ” اور اللہ ان کو ایسی جگہ میں داخل فرمائے گا جس کو وہ پسند کریں گے۔ “ اس سے مراد یا تو وہ شہر ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں فتح کئے، خاص طور پر مکہ مکرمہ، کیونکہ اہل ایمان مکہ مکرمہ میں نہایت مسرت اور رضا کی حالت میں داخل ہوئے تھے۔۔۔ یا اس سے مراد آخرت کا رزق اور جنت میں داخل ہونا ہے۔ پس آیت کریمہ رزق کی دونوں اقسام، یعنی رزق دنیا اور رزق آخرت دونوں کو جمع کرنے والی ہے لفظ کا اطلاق دونوں کے لئے درست اور معنی دونوں کے صحیح ہے۔ ان تمام معانی کے اطلاق سے کوئی امر مانع نہیں۔ ﴿ وَإِنَّ اللّٰـهَ لَعَلِيمٌ ﴾ اللہ تعالیٰ ظاہری اور باطنی، گزرے ہوئے اور آنے والے تمام امور کا علم رکھتا ہے۔ ﴿ حَلِيمٌ ﴾ مخلوق اس کی نافرمانی کرتی ہے اور بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتی ہے مگر وہ کامل قدرت رکھنے کے باوجود سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ ان کو پیہم رزق مہیا فرماتا اور اپنے فضل سے انہیں نوازتا ہے۔