لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِّلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ
اس میں (ایک بڑی) مصلحت یہ رہی ہے کہ شیطان کی وسوسہ اندازی ان لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہوجائے جن کے دل روگی ہیں اور (سچائی کی طرف سے) سخت پڑگئے ہیں اور بلاشبہ یہ ظلم کرنے والے بڑی ہی گہری مخالفت میں پڑے ہیں۔
پس یہ اس کے کمال حکمت کا حصہ ہے کہ اس نے شیاطین کو القاء کا اختیار دیا تاکہ اس امر کا حصول ہو جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً﴾” تاکہ کر دے اللہ القائے شیطانی کو آزمائش۔“ لوگوں کے دو گروہوں کے لئے فتنہ بنا دے۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی پروا نہیں اور یہ وہ لوگ ہیں ﴿ لِّلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ ﴾ جن کے دلوں میں کمزوری ہے اور ان کے دلوں میں ایمان کامل اور تصدیق جازم معدوم ہیں۔ پس یہ القاء ایسے دلوں پر اثر کرتا ہے جن کے دلوں میں ادنیٰ سا شبہ بھی ہوتا ہے، جب وہ اس شیطانی القاء کو سنتے ہیں تو شک و ریب ان کے دلوں میں گھر کرلیتا ہے اور یہ چیز ان کے لئے فتنہ بن جاتی ہے۔ ﴿ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ﴾ یعنی (دوسرا گروہ) وہ لوگ ہیں جن کے دل سخت ہوتے ہیں۔ ان کی قساوت قلبی کی بنا پر کوئی وعظ و نصیحت اور کوئی زجر و توبیخ ان پر اثر کرتی ہے نہ اللہ اور اس کے رسول کی کوئی بات ان کی سمجھ میں آتی ہے۔ پس جب وہ شیطانی القاء کو سنتے ہیں تو اسے اپنے باطل کے لئے حجت بنا لیتے ہیں اور اس کو دلیل بنا کر جھگڑا کرتے ہیں اور پھر اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں، اسی لئے فرمایا : ﴿ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ ﴾ یعنی یہ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دشمنی، حق کے ساتھ عناد اور اس کی مخالفت میں راہ صواب سے بہت دور نکل گئے ہیں۔ پس شیطان جو کچھ القاء کرتے ہیں وہ ان دونوں قسم کے گروہوں کے لئے فتنہ بن جاتا ہے اور یوں ان کے دلوں میں جو خبث چھپا ہوتا ہے، ظاہر ہوجاتا ہے۔