وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اور (اے پیغمبر) ہم نے تجھ سے پہلے جتنے رسول اور جتنے نبی بھیجے سب کے ساتھ یہ معاملہ ضرور پیش آیا کہ جونہی انہوں نے (اصلاح و سعادت کی) آرزو کی، شیطان نے ان کی آرزو میں کوئی نہ کوئی فتنہ کی بات ڈال دی اور پھر اللہ نے اس کی وسوسہ اندازیوں کا اثر مٹایا اور اپنی نشانیوں کو اور زیادہ مضبوط کردیا، وہ (سب کچھ) جاننے والا (اپنے سارے کاموں میں) حکمت والا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ اور اپنے بندوں کے لئے جو کچھ اختیار کر رکھا ہے اس کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، نیز بیان فرماتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ﴿ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ ﴾ ” جو بھی رسول اور نبی گزرا، جب بھی اس نے تمنا کی“ یعنی قراءت کی جس کے ذریعے سے وہ لوگوں کو نصیحت کرتا، ان کو معروف کا حکم دیتا اور منکر سے روکتا ﴿ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ ﴾ ” تو شیطان اس کی تمنا میں القاء کردیتا ہے۔“ یعنی اس کی قراءت میں ایسے امر سے فریب دینے کی کوشش کرتا جو اس قراءت کے مناقض (مخالف) ہوتا۔۔۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل کو تبلیغ رسالت کے ضمن میں معصوم رکھا ہے اور ہر چیز سے اپنی وحی کی حفاظت کی ہے تاکہ اس میں کوئی اشتباہ یا اختلاط واقع نہ ہو۔ مگر اس شیطانی القاء کو استقرار اور دوام نہیں ہوتا۔ یہ ایک عارض ہے جو پیش آتا ہے پھر زائل ہوجاتا ہے اور عوارض کے کچھ احکام ہیں اس لئے فرمایا : ﴿ فَيَنسَخُ اللّٰـهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اس القاء کو زائل کر کے باطل کردیتا ہے اور واضح کردیتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی آیات نہیں ہیں۔ ﴿ ثُمَّ يُحْكِمُ اللّٰـهُ آيَاتِهِ ﴾ یعنی پھر اللہ تعالیٰ اپنی آیات کو محکم اور متحقق کردیتا ہے اور ان کی حفاظت کرتاہے پس اللہ تعالیٰ کی آیات شیطانی القاء کے اختلاط سے محفوظ اور خالص رہتی ہے۔ ﴿ وَاللّٰـهُ عَلِيمٌ ﴾ اور اللہ تعالیٰ کامل علم کا مالک ہے۔ وہ اپنے کمال علم سے اپنی وحی کی حفاظت کر کے شیطانی القاء کو زائل کردیتا ہے۔ ﴿ حَكِيمٌ ﴾ وہ اشیاء کو ان کے لائق شان مقام پر رکھتا ہے۔