وَأَصْحَابُ مَدْيَنَ ۖ وَكُذِّبَ مُوسَىٰ فَأَمْلَيْتُ لِلْكَافِرِينَ ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ ۖ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ
اصحاب مدین اور موسیٰ بھی جھٹلایا گیا (اگرچہ خوچ اس کی قوم نے نہیں جھٹلایا) اور ہم نے (ہمیشہ ایسا ہی کیا کہ) پہلے منکروں کو (کچھ عرصہ کے لیے) ڈھیل دے گی پھر (مواخذہ میں) پکڑ لیا تو دیکھ، ہماری ناپسندیدگی ان کے لیے کیسی سخت ہوئی؟
﴿ فَأَمْلَيْتُ لِلْكَافِرِينَ ﴾ یعنی تکذیب کرنے والوں کو میں نے ڈھیل دی۔ ان کو سزا دینے میں میں نے جلدی نہ کی، یہاں تک کہ وہ اپنی سرکشی پر جمے رہے اور اپنے کفر و شرک میں بڑھتے ہی چلے گئے ﴿ ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ﴾ پھر میں نے ان کو غالب اور قدرت رکھنے والی ہستی کی طرح عذاب کے ذریعے سے گرفت میں لے لیا۔ ﴿فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ ﴾ پھر دیکھا ان کے کفر اور ان کی تکذیب پر میری نکیر کیسی تھی اور اس کا کیسا حال تھا۔ ان کے لئے بدترین سزا اور قبیح ترین عذاب تھا۔ ان میں سے بعض کو غرق کردیا گیا، بعض کو ایک چنگھاڑنے آلیا اور بعض طوفانی ہوا کے ذریعے ہلاک کردیئے گئے، بعض کو زمین میں دھنسا دیا گیا اور بعض کو چھتری والے دن کے عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا گیا، لہٰذا تکذیب کرنے والوں کو ان قوموں سے عبرت پکڑنی چاہئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کو بھی وہی عذاب آ لے جو گزشتہ بدکردار قوموں پر نازل ہوا یہ ان سے بہتر نہیں ہیں اور نہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں ہی میں برٓت کی کوئی ضمانت ہے۔