أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ
جن (مومنوں) کے خلاف ظالموں نے جنگ کر رکھی ہے، اب انہیں بھی (اس کے جواب میں) جنگ کی رخصت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر سراسر ظلم ہورہا ہے اور اللہ ان کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے۔
اسلام کی ابتداء میں مسلمانوں کو کفار کے خلاف جنگ کرنے کی ممانعت تھی اور ان کو صبر کرنے کا حکم تھا، اس میں حکمت الٰہیہ پوشیدہ تھی۔ جب انہوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور انہیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں ستایا گیا اور مدینہ منورہ پہنچ کر انہیں طاقت اور قوت حاصل ہوگئی تو انہیں کفار کے خلاف جہاد کی اجازت دیدی گئی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ ﴾ ” ان لوگوں کو اجازت دی جاتی ہے جن سے کافر لڑائی کرتے ہیں۔“ اس سے معلوم ہوا کہ اس سے قبل مسلمانوں کو جہاد کی اجازت نہ تھی پس اللہ نے انہیں ان لوگوں کے خلاف جہاد اور جنگ کی اجازت مرحمت فرما دی جو ان کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور انہیں کفار کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت صرف اس لئے ملی کیونکہ ان پر ظلم ڈھائے گئے، انہیں ان کے دین سے روکا گیا، دین کی وجہ سے ان کو اذیتیں دی گئیں اور ان کو ان کے گھروں اور وطن سے نکال دیا گیا۔ ﴿ وَإِنَّ اللّٰـهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ ﴾ ” اور اللہ ان کی مدد کرنے پر یقیناً قادر ہے۔“ اس لئے اہل ایمان اسی سے نصرت طلب کریں اور اسی سے مدد مانگیں۔