سورة البقرة - آیت 254

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

مسلمانوں ! ہم نے مال و متاع دنیا میں سے جو کچھ تمہیں دے رکھا ہے، اسے ( صرف اپنے نفس کے آرام و راحت پر نہیں بلکہ راہ حق میں بھی) خرچ کرو اور ہاتھ نہ روکو۔ قبل اس کے کہ (زندگی کی عارضی مہلت ختم ہوجائے، اور آنے والا دن سامنے آئے جائے۔ اس دن نہ تو (دنیا کی طرح) خرید و فروخت ہوسکے گی (کہ قیمت دے کر نجات خرید لو)، نہ کسی کی یاری کام آئے گی (کہ اس کے سہارے گناہ بخشوا لو) نہ ایسا ہی ہوسکے گا کہ کسی کی سعی و سفارش سے کام نکال لیا جائے، (اس دن صرف عمل ہی نجات دلا سکے گا) اور یاد رکھو، جو لوگ اس حقیقت سے) منکر ہیں، تو یقینا یہی لوگ ہیں جو اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کرنے والے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ کا اپنے بندوں پر یہ بھی احسان ہے کہ اس نے حکم دیا ہے کہ اسی کے دیے ہوئے رزق میں سے تھوڑا سا واجب اور مستحب صدقہ پیش کریں تاکہ ان کے لئے ثواب کا ذریعہ ہوجائے اور انہیں اس دن زیادہ ہو کر ملے جس دن ایک ذرہ برابر نیکی کی ضرورت ہوگی تو مل نہیں سکے گی۔ اگر انسان زمین بھر سونا فدیہ کر دے تاکہ اس دن کے عذاب سے بچ جائے، تو اس کی یہ پیش کش قبول نہیں کی جائے گی۔ نہ کوئی دوست اس کے کام آسکے گا وجاہت کے ذریعے سے، نہ شفاعت کے ذریعے سے۔ اس دن اہل باطل خسارے میں ہوں گے اور ظالم رسوا ہوں گے۔ ظالم وہ ہیں جو ایک چیز کو اس کے محل سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھ دیتے ہیں۔ پس انہوں نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کے واجب کو ترک کردیا اور حلال کے بجائے حرام اختیار کیا۔ سب سے بڑا ظلم اللہ کے ساتھ کفر کرنا ہے، یعنی عبادت جو صرف اللہ کا حق ہے۔ کافر اسے اپنے جیسی مخلوق کے لئے کرتا ہے۔ اس لئے اللہ نے فرمایا﴿ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾” اور کافر ہی ظالم ہیں۔“ اور یہ حصر کے باب سے ہے، یعنی انہوں نے مکمل ظلم کا ارتکاب کیا ہے۔ جیسے ارشاد ہے ﴿ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾  (لقمن :13؍31) ” بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔“