سورة الأنبياء - آیت 76

وَنُوحًا إِذْ نَادَىٰ مِن قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اسی طرح) نوح کا معاملہ (بھی یاد کرو) جو ان (نبیوں) سے پیشتر کا ہے، جب اس نے ہمیں پکارا تھا تو (دیکھو) ہم نے اس کی پکار سن لی، اور اسے اور اس کے گھرانے کو ایک بڑی ہی سختی سے نجات دے دی۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

ہمارے بندے اور رسول نوح علیہ السلام کی مدح و ثنا بیان کرتے ہوئے ان کا ذکر کیجئے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی طرف مبعوث فرمایا اور وہ ان کے اندر ساڑھے نو سو سال رہے، ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلاتے رہے، انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے سے روکتے رہے، بار بار انہیں کھلے چھپے اور شب و روز اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے رہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ وعظ و نصیحت اور زجر و توبیخ سے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا، تو انہوں نے اپنے رب کو پکارا اور دعا کی۔ ﴿ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا  ﴾ (نوح : 17؍26، 27)” اے میرے رب ! روئے زمین پر کسی کافر کو آباد نہ رہنے دے اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور فاجر اور کافر اولاد ہی کو جنم دیں گے۔“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کی دعا کو قبول فرما لیا اور ان کو سیلاب میں غرق کردیا، ان میں سے ایک شخص کو بھی زندہ باقی نہ چھوڑا۔ صرف نوح علیہ السلام ان کی ذریت اور مومنین باقی رہ گئے اور اللہ تعالیٰ نے ٹھٹھا کرنے والی قوم کے خلاف ان کی مدد فرمائی۔