سورة البقرة - آیت 248

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَىٰ وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور پھر ان کے نبی نے کہا (تم طالوت کے استحقاق حکومت پر اعتراض کرتے تھے تو دیکھو) اس کی (اہلیت) حکومت کی نشانی یہ ہے کہ (مقدس) تابوت (جو تم کھو چکے ہو اور دشمنوں کے ہاتھ پڑچکا ہے) تمہارے پاس واپس) آجائے گا، اور (حکمت الٰہی سے ایسا ہوگا کہ) فرشتے اسے اٹھا لائیں گے۔ اس تابوت میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے لیے (فتح کامرانی کی) دلجمعی ہے اور جو کچھ موسیٰ اور ہارون کے گھرانے (اپنی مقدس یادگاریں) چھوڑ گئے ہیں، ان کا بقیہ ہے۔ اگر تم یقین کرنے والے ہو تو یقینا اس واقعے میں تمہارے لیے بڑی ہی نشانی ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

وہ جانتا ہے کہ فضل کا حق دار کون ہے اس پر فضل کردیتا ہے۔ اس کلام سے ان کے دلوں کے تمام شکوک و شبہات دور ہوگئے۔ کیونکہ طالوت میں حکمرانوں والی خوبیاں موجود تھیں، اور اللہ اپنا فضل جسے چاہے دیتا ہے، اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ اس کے بعد ان کے نبی نے ایک حسی نشانی بھی بیان کی، جسے وہ دیکھ لیں گے۔ وہ ہے اس تابوت کا واپس مل جانا جو ایک طویل عرصہ سے ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ اس تابوت میں ان کے لئے اطمینان قلب اور سکون کا سامان موجود تھا۔ یعنی آل موسیٰ اور آل ہارون کی چھوڑی ہوئی اشیا موجود تھیں۔ اسے فرشتے اٹھا کر لائے تو لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔