سورة الأنبياء - آیت 47

وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ہم قیامت کے دن انصاف کے ترازو کھڑے کردیں گے، پس کسی جان کے ساتھ ذرا بھی ناانصافی نہ ہوگی، اگر رائی برابر بھی کسی کا عمل ہوگا تو ہم اسے زمین میں لے آئیں گے، جب ہم (خود) حساب لینے والے ہوں تو پھر اسکے بعد کیا باقی رہا؟

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے عدل پر مبنی حکم کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، قیامت کے روز جب وہ اپنے بندوں کو جمع کرے گا تو ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرے گا۔ نہایت عدل کے ساتھ وزن کرنے والی ترازوئیں قائم کردی جائیں جن پر ذرہ بھر وزن بھی واضح ہوجائے گا۔ یہ ترازوئیں نیکیوں اور برائیوں کا وزن کریں گی۔ ﴿ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ﴾ ” پس کسی نفس پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔“ خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر ﴿ شَيْئًا﴾ ” کچھ بھی۔“ یعنی کسی شخص کی نیکیوں میں کمی کی جائے گی نہ کسی شخص کی برائیوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ ﴿وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ﴾ ” اور اگر ہوگا (عمل) رائی کے دانے کے برابر۔“ جو کہ سب سے چھوٹی اور حقیر سی چیز ہے یعنی رائی کے دانے کے برابر بھی نیکی یا بدی ہوگی ﴿ أَتَيْنَا بِهَا ﴾ ہم اسے سامنے حاضر کردیں گے تاکہ اس پر اس کے مرتکب کو جزا دی جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ﴾ (الزلزال : 99؍7، 8) ” جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کا ارتکاب کیا ہوگا وہ اسے دیکھ لے گا۔“ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَـٰذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا ۚ وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا﴾ (الکھف :18؍49) ” وہ کہیں گے کہ ہماری کم بختی ! یہ کیسی کتاب ہے کہ کوئی چھوٹا یا بڑا عمل ایسا نہیں جو اس میں لکھنے سے رہ گیا ہو اور وہ اپنے تمام اعمال کو موجود پائیں گے۔ “ ﴿ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ﴾ اللہ تعالیٰ کی اس سے مراد خود اپنا نفس کریمہ ہے اور وہ حساب لینے کے لئے کافی ہے۔ یعنی اللہ اپنے بندوں کے اعمال کا علم رکھتا ہے، ان اعمال کو کتاب میں درج کر کے ان کی حفاظت کرتا ہے، وہ ان اعمال کی مقدار کے مطابق ثواب اور ان کے استحقاق کا بھی علم رکھتا ہے اور وہ عمل کرنے والوں کو ان کی جزا عطا کرے گا۔