سورة الأنبياء - آیت 45

قُلْ إِنَّمَا أُنذِرُكُم بِالْوَحْيِ ۚ وَلَا يَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَاءَ إِذَا مَا يُنذَرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) تو کہہ دے میری پکار اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ کی وحی سے علم پاکر تمہیں متنبہ کر رہا ہوں اور (یاد رکھ) جو بہرے ہیں انہیں کتنا ہی خبردار کیا جائے کبھی سننے والے نہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿قُلْ﴾ اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) آپ تمام لوگوں سے کہہ دیجئے ﴿ إِنَّمَا أُنذِرُكُم بِالْوَحْيِ﴾ یعنی میں تو اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں جو کچھ تمہارے پاس لایا ہوں وہ اپنی طرف سے نہیں لایا نہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں، نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں دعویٰ کرتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف اس چیز کے ذریعے سے تمہیں ڈراتا ہوں جو اللہ تعالیٰ میری طرف وحی کرتا ہے۔ اگر تم نے میری دعوت پر لبیک کہی تو یہ اللہ تعالیٰ کی دعوت پر لبیک ہے وہ تمہیں اس پر ثواب عطا کرے گا اور اگر تم روگردانی کر کے اس کی مخالفت کرو گے، تو میرے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں۔ اختیار تو تمام تر اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے اور تقدیر صرف اسی کی طرف سے ہے۔ ﴿ وَلَا يَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَاءَ﴾ یعنی بہرہ کسی قسم کی آواز نہیں سن سکتا کیونکہ اس کی سماعت خراب ہوچکی ہے جس طرح آواز کا سننا اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ آواز کو قبول کرنے والا مقام و محل موجود ہو۔ اسی طرح وحی قلب و روح کے لئے زندگی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھ کا سبب ہے لیکن اگر قلب ہدایت کی آواز کو قبول نہیں کرتا، تو وہ ہدایت اور ایمان کی نسبت سے اس بہرے کی مانند ہے جو آوازوں کو نہیں سن سکتا۔ یہ مشرکین بھی ہدایت اور ایمان کی آواز سننے سے بہرے ہیں اس لئے ان کا ہدایت کو قبول نہ کرنا کوئی تعجب انگیز بات نہیں خاص طور پر اس حالت میں کہ ابھی تک ان کو عذاب اور اس کی تکلیف نے چھوا نہیں۔