سورة الأنبياء - آیت 22

لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود بھی ہوتا تو (ممکن نہ تھا کہ ان کا کارخانہ اس نظم وہم آہنگی کے ساتھ چلتا) وہ یقینا بگڑ کے برباد ہوجاتے۔ پس اللہ کے لیے کہ (جہانبانی عالم کے) تخت کا مالک ہے، پاکی ہو، ان ساری باتوں سے پاکی ہو جو اس کی نسبت بیان کرتے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اس لئے فرمایا ﴿ لَوْ كَانَ فِيهِمَا﴾ اگر ہوتے زمین اور آسمان میں ﴿ آلِهَةٌ إِلَّا اللّٰـهُ لَفَسَدَتَا﴾ ’’کئی معبود اللہ کے سوا، تو یہ دونوں درہم برہم ہوجاتے “۔ خود زمین و آسمان فساد کا شکار ہوجاتے اور زمین و آسمان میں موجود تمام مخلوق میں فساد برپا ہوجاتا۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ عالم علوی اور عالم سفلی۔۔۔۔ جیسا کہ نظر آرہا ہے بہترین اور کامل ترین انتظام کے تحت چل رہے ہیں جس میں کوئی خلل ہے نہ عیب، جس میں کوئی اختلاف ہے نہ معارضہ۔۔۔۔۔ پس کائنات کا یہ انتظام دلالت کرتا ہے کہ ان کی تدبیر کرنے والا، ان کا رب اور ان کا معبود ایک ہے۔ اگر اس کائنات کی تدبیر کرنے والے اور اس کے رب دو یا دو سے زیادہ ہوتے تو اس کا پورا نظام درہم برہم ہوجاتا اور اس کے تمام ارکان منہدم ہوجاتے کیونکہ دونوں معبود ایک دوسرے کے معارض ہوتے اور ایک دوسرے کے انتظام سے مزاحم ہوتے۔ جب ان دو معبودوں میں سے ایک معبود کسی چیز کی تدبیر کا ارادہ کرتا اور دوسرا اس کو معدوم کرنے کا ارادہ کرتا تو بیک وقت دونوں کی مراد کا وجود میں آنا محال ہوتا اور دونوں میں سے کسی ایک کی مراد کا پورا ہونا دوسرے کے عجز اور اس کے عدم اقتدار پر دلالت کرتا ہے اور تمام معاملات میں کسی ایک مراد پر دونوں کا متفق ہونا ناممکن ہے، تب یہ حقیقت متعین ہوگئی کہ وہ غالب و قاہر ہستی جس اکیلے ہی کی مراد بغیر کسی مانع کے وجود میں آتی ہے، وہ اللہ واحد و قہار ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے باہم ممانعت کی دلیل یہ بیان فرمائی﴿ مَا اتَّخَذَ اللّٰـهُ مِن وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَـٰهٍ  إِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَـٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ  سُبْحَانَ اللّٰـهِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴾(المومنون : 23، 91) ” اللہ نے کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا اور نہ کوئی دوسرا معبود ہی اس کی عبودت میں اس کے ساتھ شریک ہے اگر ایسا ہوتا تو ہر معبود اپنی اپنی مخلوق کو لے کر علیحدہ ہوجاتا اور غالب آنے کے لئے ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے، جن اوصاف سے تم اسے موصوف کر رہے ہو اللہ ان سے پاک ہے۔“ اور ایک تفسیر کے مطابق درج ذیل آیت بھی اسی تمانع کی دلیل ہے۔ ﴿قُل لَّوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لَّابْتَغَوْا إِلَىٰ ذِي الْعَرْشِ سَبِيلًا سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا﴾(بنی اسرائیل : 17؍ 42، 43 ) ” کہہ دیجئے اگر اللہ کے ساتھ دوسرے معبود بھی ہوتے کہ یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں تو عرش کے مالک تک پہنچنے کے لئے کوئی راستہ ضرور تلاش کرتے، وہ پاک اور بلند و بالا ہے، ان باتوں سے جو یہ مشرکین کہہ رہے ہیں “۔ اسی لئے فرمایا ﴿فَسُبْحَانَ اللّٰـهِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ پاک اور منزہ ہے ہر نقص سے کیونکہ وہ اکیلا کمال کا مالک ہے ﴿ رَبِّ الْعَرْشِ﴾ ” رب ہے عرش کا “۔ وہ عرش و مخلوقات کی چھت، تمام مخلوقات سے زیادہ وسیع اور سب سے بڑا ہے، لہٰذا اس سے کمتر مخلوق کے لئے اس کا رب ہونا تو بطریق اولیٰ ثابت ہے۔ ﴿ عَمَّا يَصِفُونَ ﴾ یعنی یہ منکرین حق اور کفار جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا بیٹا اور بیوی ہے، کسی بھی لحاظ سے اس کا کوئی شریک ہے، ان سب باتوں سے وہ پاک ہے۔