سورة الأنبياء - آیت 1

اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

وقت قریب آلگا ہے کہ لوگوں سے (ان کے اعمال کا) حساب لیا جائے، اس پر بھی ان کا یہ حال ہے کہ رخ پھیرے غفلت میں متوالے چلے جارہے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ لوگوں کے احوال پر تعجب کا اظہار ہے اور اس امر کی آگاہی کہ انہیں کوئی وعظ و نصیحت فائدہ دیتی ہے نہ وہ کسی ڈرانے والے کی طرف دھیان دیتے ہیں اور یہ کہ ان کے حساب اور ان کے اعمال صالحہ کی جزا کا وقت قریب آگیا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ غفلت میں پڑے روگردانی کر رہے ہیں، یعنی وہ ان مقاصد سے غافل ہیں جن کے لئے ان کو پیدا کیا گیا ہے اور ان کو جو تنبیہ کی جاتی ہے وہ اسے درخور اعتناء نہیں سمجھتے۔ گویا کہ انہیں صرف دنیا کے لئے تخلیق کیا گیا ہے اور وہ محض اس دنیا سے فائدہ اٹھانے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نئے نئے انداز سے انہیں وعظ و نصیحت کرتا ہے اور یہ ہیں کہ اپنی غفلت اور اعراض میں مستغرق ہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ذکر فرماتا ہے کہ ظالم کفار عناد اور باطل کے ذریعے سے حق کا مقابلہ کرنے کی خاطر ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں یہ کہنے پر متفق ہیں کہ وہ تو ایک بشر ہے، کس بنا پر اسے تم پر فضیلت دی گئی ہے اور کس وجہ سے اسے تم میں سے خاص کرلیا گیا ہے اور تم میں سے کوئی اس قسم کا دعویٰ کرے تو اس کا دعویٰ بھی اسی طرح کا دعویٰ ہوگا۔ درحقیقت یہ شخص تم پر اپنی فضیلت ثابت کر کے تمہارا سردار بننا چاہتا ہے، اس لئے اس کی اطاعت کرنا نہ اس کی تصدیق کرنا، یہ جادوگر ہے اور یہ جو قرآن لے کر آیا ہے، وہ جادو ہے، اس لئے اس سے خود بھی دور رہو اور لوگوں کو بھی اس سے متنفر کرو اور لوگوں سے کہو ! ﴿أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ﴾ یعنی اسے دیکھتے ہوئے تم اس جادو کی طرف کھنچے چلے آرہے ہو۔۔۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے برحق رسول ہیں کیونکہ وہ بڑی بڑی آیات الٰہی کا مشاہدہ کرتے ہیں جن کا مشاہدہ ان کے علاوہ کسی اور نے نہیں کیا، لیکن ظلم، عناد اور بدبختی نے ان کو اس انکار پر آمادہ کیا اور جو وہ سرگوشیاں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے لامحدود علم نے ان کا احاطہ کررکھا ہے عنقریب وہ ان کو ان سرگوشیوں کی سزا دے گا۔