سورة طه - آیت 130

فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ۖ وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَىٰ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پس چاہیے کہ ان کی ساری باتوں پر صبر کر اور اپنے پروردگار کی حمد و ثنا کی پکار میں لگا رہ، صبح کو سورج نکلنے سے پہلے، شام کو ڈوبنے سے پہلے، رات کی گھڑیوں میں بھی، اور دوپہر کے لگ بھگ بھی، بہت ممکن ہے کہ تو بہت جلد (ظہور نتائج سے) خوشنود ہوجائے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے تسلی اور صبرکی ترغیب ہے کہ وہ ان جھٹلانے اور روگردانی کرنے والوں کے لئے جلدی ہلاکت کی خواہش نہ کریں۔ ان کا کفر اور تکذیب، ان پر عذاب نازل ہونے کے لئے ایک معقول سبب ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے سزاؤں کے لئے سبب مقرر کیا ہے جو گناہوں سے جنم لیتا ہے اور ان لوگوں نے نزول عذاب کے اسباب پیدا کردیئے ہیں مگر جس چیز نے اس عذاب کو موخر کر رکھا ہے وہ ہے اللہ تعالیٰ کا حکم جو مہلت دینے اور وقت مقرر کرنے کو متضمن ہے۔ وقت کا مقرر ہونا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کا نفاذ، نزول عذاب کو اس وقت کے آنے تک کے لئے موخر کردیتا ہے۔ شاید کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف رجوع کریں، اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرلے اور عذاب کو ان سے دور کر دے جب تک کہ اللہ کا کلمہ ان پر ثابت نہ ہوجائے۔ اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ ان کی قولی اذیتوں پر صبر کرے اور اس کے مقابلے میں ان اوقات فاضلہ میں رب کی تسبیح و تحمید سے مدد لے۔۔۔ یعنی طلوع آفتاب اور غروب آفتاب، دن کے کناروں پر، یعنی اس کے اوائل اور اواخر میں۔۔۔ یہ خصوص کے بعد عموم کا ذکر ہے۔۔۔ نیز رات کے اوقات اور اس کی گھڑیوں میں۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر عمل پیرا ہوئے تو شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب کے عطا کردہ دنیاوی اور اخروی ثواب پر راضی ہوجائیں، آپ کو اطمینان قلب حاصل ہو، اپنے رب کی عبادت سے آپ آنکھیں ٹھنڈی کریں اور ان کی اذیت رسانی پر اس عبادت کے ذریعے سے دل کو تسلی ہو تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے صبر بہت آسان ہوجائے گا۔