سورة طه - آیت 74

إِنَّهُ مَن يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَىٰ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کچھ شک نہیں جو شخص اپنے پروردگار کے حضور مجرم ہو کر حاضر ہوگا تو یقینا اس کے لیے دوزخ ہوگی نہ تو اس میں مرے گا، نہ زندہ رہے گا (دونوں حالتوں کے درمیان سسکتا رہے گا)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ جو کوئی مجرم کی حیثیت سے اس کے حضور حاضر ہوتا ہے یعنی وہ ہر لحاظ سے مجرمانہ صفات سے متصف ہے جو کفر کو مستلزم ہے اور وہ مرتے دم تک اس پر جما رہتا ہے، اس کی سزا جہنم ہے، جس کا عذاب بہت ہی سخت، جس کی ہتھکڑیاں بہت بڑی، جس کی گہرائی بہت زیادہ اور جس کی گرمی اور سردی بہت المناک ہوگی اور جہنم میں اس کو ایسا عذاب دیا جائے گا جو دل و جگر کو پگھلا کر رکھ دے گا۔ جہنم کے عذاب کی ایسی شدت ہوگی کہ جس کو عذاب دیا جائے گا وہ اس عذاب میں مرے گا نہ جئے گا، نہ وہ مرے گا کہ اس کی جان چھوٹ جائے اور نہ وہ جئے گا کہ وہ اس زندگی سے لذت اٹھا سکے۔ اس کی زندگی قلبی، روحانی اور جسمانی عذاب سے لبریز ہوگی، جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ عذاب ایک گھڑی کے لئے بھی اس سے دور نہ ہوگا۔ وہ مدد کے لئے پکارے گا لیکن اس کی مدد نہ کی جائے گی اور وہ دعائیں کرے گا لیکن اس کی دعا قبول نہ ہوگی۔ ہاں ! جب وہ پانی مانگے گا تو اسے پینے کے لئے ایسا پانی دیا جائے گا جو تیل کی تلچھٹ کی مانند ہوگا جو چہروں کو بھون کر رکھ دے گا۔ جب وہ پکارے گا تو اس کو جواب دیا جائے گا۔ ﴿ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ﴾ (المومنون :23؍108) ” دفع ہوجاؤ اور اسی عذاب میں پڑے رہو اور میرے ساتھ کلام نہ کرو۔“