أُولَٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ
(یقین کرو) یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لی۔ لیکن نہ تو ان کی تجارت فائدہ مند نکلی نہ ہدایت ہی پر قائم رہے
یعنی وہ گمراہی کی طرف اس طرح راغب ہوئے جیسے خریدار کسی ایسے سامان تجارت کو خریدنے کی طرف مائل ہو جسے خریدنے کی اسے سخت چاہت ہو چنانچہ وہ اس رغبت کی وجہ سے اس میں اپنا قیمتی مال خرچ کرتا ہے اور یہ بہترین مثال ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے گمراہی کو جو کہ برائی کی انتہا ہے، سامان تجارت سے تشبیہ دی ہے اور ہدایت کو جو کہ بھلائی کی انتہا ہے، اس سامان تجارت کی قیمت سے تشبیہ دی۔ پس انہوں نے ہدایت کو، اس سے بے رغبتی کی وجہ سے اور گمراہی کی طرف رغبت اور چاہت کی وجہ سے، گمراہی کے بدلے میں خرچ کردیا۔۔۔ پس یہ تھی ان کی تجارت کتنی بری تجارت تھی اور یہ تھا ان کا سامان بیع اور کتنا برا سامان بیع تھا۔ جب کوئی شخص ایک درہم کے مقابلے میں ایک دینار خرچ کرتا ہے تو خائب و خاسر کہلاتا ہے، تب اس شخص کے خسارے کا کیا حال ہوگا جو جواہر خرچ کر کے اس کے بدلے میں ایک درہم حاصل کرتا ہے اور پھر اس شخص کا خسارہ کتنا بڑا ہوگا جو ہدایت کے بدلے گمراہی خریدتا ہے، خوش بختی کو چھوڑ کر بدبختی اختیار کرتا ہے اور بلند مقاصد کو ترک کر کے گھٹیا امور کی طرف راغب ہوتا ہے۔ اس کی تجارت نے اسے کوئی نفع نہ دیا بلکہ وہ سب سے بڑے خسارے میں مبتلا ہوگیا۔ ﴿قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ أَلَا ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ﴾ (الزمر :15؍39) ”(اے نبی !) فرما دیجیے کہ بے شک خسارہ اٹھانے والے وہ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو قیامت کے روز خسارے میں ڈالا۔ آگاہ رہو ! کہ یہی صریح خسارہ ہے۔“ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ﴾” اور نہ ہوئے وہ راہ پانے والے“ ان کی گمراہی کو متحقق کرنے کے لئے ہے نیز یہ کہ ہدایت سے ان کو کوئی حصہ نہیں ملا۔ پس یہ ان منافقین کے بدترین اوصاف ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے احوال کو واضح کرنے کے لئے ایک تمثیل بیان کی، فرمایا :