سورة طه - آیت 16

فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَن لَّا يُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَتَرْدَىٰ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پس دیکھ ایسا نہ ہو کہ جو لوگ اس وقت کے ظہور پر یقین نہ رکھتے ہوں اور اپنی خواہش کے بندے ہوں وہ تجھے بھی (قدم بڑھانے سے) روک دیں اور نتیجہ یہ نکلے کہ تو تباہ ہوجائے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

وہ شخص، جو قیامت کا انکار کرتا ہے اور اس کے واقع ہونے کا اعتقاد نہیں رکھتا وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قیامت اور جزا و سزا پر ایمان لانے اور اس کے مطابق عمل کرنے سے روک نہ دے۔ وہ اس بارے میں شک کرتا ہے اور شک پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس بارے میں باطل دلائل کے ذریعے سے بحث کرتا ہے، خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہوئے، مقدور بھر قیامت کے بارے میں شبہات پیدا کرتا ہے، اس کا مقصد حق تک پہنچنا نہیں بلکہ اس کا مقصد صرف خواہشات نفس کی پیروی ہے۔ جس شخص کا یہ حال ہو اس کی بات پر کان دھرنے اور اس کے اقوال و افعال کو، جو قیامت پر ایمان لانے سے روکتے ہیں، قبول کرنے سے بچئے۔ جس شخص کا یہ حال ہے اس سے بچنے کا اللہ تعالیٰ نے صرف اس لئے حکم دیا ہے کہ وہ ایسا شخص ہے جس کا دجل اور اس کی وسوسہ اندازی مومن کے لئے سب سے زیادہ ڈرنے کی چیز ہے اور نفوس انسانی کی فطرت ہے کہ وہ اپنے ابنائے جنس کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان کی پیروی کرتے ہیں۔ اس میں تنبیہ اور اشارہ ہے کہ ہر اس شخص سے بچا جائے جو باطل کی طرف دعوت دیتا ہے، ایمان واجب یا اس کی تکمیل سے روکتا ہے اور قلب میں شبہات پیدا کرتا ہے، نیز ان تمام کاتبوں سے بچا جائے جو باطل نظریات پر مشتمل ہیں۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان، آخرت پر ایمان اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ یہ تینوں امور ایمان کی اساس اور دین کا ستون ہیں۔ اگر یہ امور کامل ہیں تو دین بھی کامل ہے اور ان امور کے فقدان یا ان کے ناقص رہنے سے دین بھی ناقص رہ جاتا ہے۔ اس کی نظیر اللہ تبارک و تعالیٰ کا وہ ارشاد ہے جس میں ان گروہوں کی سعادت اور شقاوت کی میزان کے بارے میں خبر دی گئی ہے، جن کو کتاب عطا کی گئی تھی۔ فرمایا: ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ وَالنَّصَارَىٰ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴾(المائدۃ:5؍69)” بے شک جو لوگ ایمان لائے یا یہودی ہوئے یا صابی یا عیسائی، جو بھی اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائے گا اور نیک عمل بھی کرے گا، ان کے لئے کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں گے۔“ ارشاد فرمایا : ﴿فَتَرْدَىٰ﴾ یعنی اگر آپ اس شخص کے راستے پر گامزن ہوئے جو مذکورہ امور سے روکتا ہے تو آپ ہلاک ہو کر بدبختی کا شکار ہوجائیں گے۔