إِلَّا تَذْكِرَةً لِّمَن يَخْشَىٰ
وہ تو اس لیے نازل ہوا ہے کہ جو دل (انکار و بدعملی کے نتائج سے) ڈرنے والا ہے، اس کے لیے نصیحت ہو (جو ڈرنے والے نہیں وہ کبھی اس کی صداؤں پر کان نہیں دھریں گے)
اس لئے فرمایا : ﴿إِلَّا تَذْكِرَةً لِّمَن يَخْشَىٰ ﴾ یہ اس لئے نازل کیا تاکہ اس سے وہ شخص نصیحت پکڑے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔ پس وہ جلیل ترین مقاصد کی خاصر اس کے اندر دی گئی ترغیب سے نصیحت پکڑتا اور اس کی وجہ سے اس پر عمل کرتا ہے اور اس کے اندر شقاوت و خسران سے جو ڈرایا گیا ہے، اس سے ڈرتا اور شریعت کے احکام جمیلہ سے نصیحت پکڑتا ہے جن کا حسن و جمال، مجمل طور پر عقل میں جاگزیں ہے اور وہ ان تفاصیل کے مطابق ہیں جو اس کی عقل و فطرت میں موجود ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو (تذکرہ) کہا ہے۔ کسی چیز کا ” تذکرہ“ موجود ہوتا ہے البتہ انسان خود اس سے غافل ہوتا ہے یا اس کی تفاصیل مستحضر نہیں ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس ” تذکرہ“ (یاد دہانی) کو اس شخص کے ساتھ مختص کیا ہے ﴿لِّمَن يَخْشَىٰ ﴾ ” جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے“ کیونکہ اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرنے والا شخص اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور وہ شخص فائدہ اٹھا بھی کیسے سکتا ہے جو جنت پر ایمان رکھتا ہے نہ جہنم پر اور اس کے قلب میں ذرہ بھر بھی خوف الٰہی موجود نہیں؟ یہ ایسی بات ہے جو کبھی نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ سَيَذَّكَّرُ مَن يَخْشَىٰ وَيَتَجَنَّبُهَا الْأَشْقَى الَّذِي يَصْلَى النَّارَ الْكُبْرَىٰ ﴾ (الاعلیٰ :87؍10۔12) ” جو اللہ کا خوف رکھتا ہے وہی اس سے نصیحت پکڑتا ہے اور بدبخت (اور بے خوف انسان) اس سے پہلو تہی کرتا ہے، وہ جو بہت بڑی دھکتی ہوئی آگ میں جھونکا جائے گا۔ “