سورة البقرة - آیت 227

وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

لیکن اگر (ایسا نہ ہوسکے اور) طلاق ہی کی ٹھان لیں، تو (پھر بیوی کے لیے طلاق ہے۔ البتہ ملاپ کی جگہ جدائی کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ بات نہ بھولو کہ) اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ وَاِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ﴾” اور اگر وہ طلاق کا ارادہ کرلیں۔“ یعنی اگر وہ رجوع کرنے سے انکار کردیں، تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ انہیں ان میں رغبت نہیں اور وہ ان کو بیوی کے طور پر باقی رکھنا نہیں چاہتے۔۔۔۔۔۔ اور یہ چیز طلاق کے ارادے کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔ اگر یہ طلاق جو اس پر واجب ہے، کہنے سننے پر بیوی کو حاصل ہوجائے تو ٹھیک ورنہ حاکم اس کو طلاق پر مجبور کرے یا خود نافذ کردے۔ ﴿ فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ﴾” بے شک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے“ اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لئے سخت وعید اور تہدید ہے جو کوئی اللہ کی قسم اٹھاتا ہے اور اس کا مقصد محض ضر رسانی اور تکلیف پہنچانا ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے اس امر پر استدلال کیا جاتا ہے کہ اِیلاء بیوی سے مخصوص ہے کیونکہ اس میں مِنْ نِّسَاءِ ھِمْ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ نیز چار ماہ میں ایک مرتبہ بیوی کے ساتھ مجامعت فرض ہے، کیونکہ چار ماہ کے بعد یا تو اسے مجامعت پر مجبور کیا جائے گا یا اسے طلاق دینی پڑے گی۔ یہ جبر صرف اسی وقت ہوسکتا ہے جب وہ کسی واجب کو ترک کرے۔