سورة البقرة - آیت 223

نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُم مُّلَاقُوهُ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(جہاں تک وظیفہ زوجیت کا تعلق ہے) تمہاری عورتیں تمہارے لیے ایسی ہیں جیسے کاشت کی زمین پس جس طرح بھی چاہو اپنی زمین) فطری طریقہ سے) کاشت کرو اور اپنے لیے مستقبل کا سروسامان کرو (اور اصلی بات یہ ہے کہ ہر حال میں) اللہ سے ڈرتے رہو، اور یہ بات نہ بھولو کہ (ایک دن تمہیں مرنا اور) اس کے حضور حاضر ہونا ہے، اور ان کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں (دین حق کی سہولتوں اور بے جا قید و بند سے پاک ہونے کی) بشارت ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ نِسَاۗؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ ۠ فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ ۡ﴾” تمہاری بیویاں، تمہاری کھیتیاں ہیں، پس تم اپنی کھیتوں کو جہاں سے چاہو، آؤ“ یعنی تم اپنی بیویوں سے سامنے سے جماع کرو یا پیچھے سے۔ البتہ یہ جماع صرف قبل (یعنی شرمگاہ) میں ہونا چاہئے، کیونکہ یہی کھیتی کے اگنے کی جگہ ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے اولاد جنم لیتی ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ دبر (یعنی پیٹھ) میں جماع کرنا حرام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بیوی کے ساتھ صرف اسی مقام میں مجامعت کو جائز قرار دیا ہے جو کھیتی (یعنی اولاد) پیدا کرنے کا مقام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت کثرت سے احادیث مروی ہیں جو دبر میں جماع کی تحریم پر دلالت کرتی ہیں اور جن میں آپ نے اس فعل کے مرتکب پر لعنت فرمائی ہے۔ [سنن ابي داؤد، النكاح، باب جامع النكاح، حديث: 2162] ﴿ وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ ۭ﴾ ” اور اپنے لئے (نیک عمل) آگے بھیجو۔“ یعنی نیکیوں کے کام سر انجام دے کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو اور ان نیکیوں میں ایک نیکی یہ بھی ہے کہ مرد اپنی بیوی سے مباشرت کرے، یہ مباشرت اللہ تعالیٰ کے تقرب کی خاطر اور اولاد کے حصول کی امید کے ساتھ ہو، وہ اولاد جن کے ذریعے سے اللہ فائدہ پہنچاتا ہے۔ ﴿ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ﴾” اور اللہ سے ڈرتے رہو۔“ یعنی اپنے تمام احوال میں تقویٰ اختیار کرو اور اس بارے میں اپنے علم سے مدد لیتے ہوئے تقویٰ کا التزام کرو ﴿ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ مُّلٰقُوْہُ ۭ﴾” اور جان لو کہ تم اس (اللہ تعالیٰ) سے ملاقات کرو گے“ اور وہ تمہیں تمہارے اعمال صالحہ وغیرہ کی جزا دے گا ﴿ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾” اور ایمان والوں کو بشارت سنا دو۔“ یہاں اس امر کا ذکر نہیں کیا گیا جس کی بشارت دی گئی ہے، تاکہ یہ بشارت کے عموم پر اور اس بات پر دلالت کرے کہ ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت میں داخل ہے۔ اس آیت میں اس امر کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اہل ایمان سے محبت کرتا ہے اور اس چیز کو پسند کرتا ہے جس سے اہل ایمان خوش ہوتے ہیں نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اہل ایمان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیار کی ہوئی دنیاوی اور اخروی جزا کے حصول کے لئے شوق اور نشاط پیدا کرنا مستحب ہے۔