سورة مريم - آیت 37

فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِن بَيْنِهِمْ ۖ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِن مَّشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيمٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

مگر پھر اس کے بعد مختلف فرقے آپس میں اکتلاف کرنے لگے، تو جن لوگوں نے حقیقت حال سے انکار کیا، ان کی حالت پر افسوس ! اس دن کے منظر پر افسوس جو (آنے والا ہے، اور جو) بڑا ہی سخت دن ہوگا۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہا السلام کا حال بیان فرما دیا جس میں کوئی شک اور شبہ نہیں تو آگاہ فرمایا کہ یہود و نصاریٰ اور دیگر فرقے اور گروہ جو گمراہی کے راستے پر گامزن ہیں، اپنے اپنے طبقات کے اختلاف کے مطابق، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں۔ اس بارے میں ایک گروہ افراط اور غلو میں مبتلا ہے تو دوسرا ان کی شان میں تنقیص اور تفریط کرنے والا ہے۔ پس ان میں سے کچھ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ مانتے ہیں۔ بعض ان کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے ہیں، بعض کہتے ہیں وہ تین میں سے ایک ہیں، بعض ان کو رسول بھی تسلیم نہیں کرتے بلکہ وہ بہتان طرازی کرتے ہیں کہ وہ (معاذ اللہ) ولدالزنا ہیں۔۔۔ مثلاً: یہودی وغیرہ۔ ان تمام گروہوں کے اقوال باطل اور ان کی آراء فاسد ہیں جو شک و عناد، بے بنیاد شبہات اور انتہائی بودے دلائل پر مبنی ہیں۔ اس قبیل کے تمام لوگ انتہائی سخت وعید کے مستحق ہیں، اسی لئے فرمایا : ﴿فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ ” پس ہلاکت ہے کافروں کے لئے“ جو اللہ، اس کے رسول اور اس کی کتابوں کا انکار کرتے ہیں، ان میں یہود اور نصاریٰ دونوں شامل ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کفریہ کلمات کہتے ہیں : ﴿مِن مَّشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيمٍ﴾ ” بڑے دن کی حاضری سے“ یعنی قیامت کے روز جب اولین و آخرین سب حاضر ہوں گے، زمین اور آسمانوں کے تمام رہنے والے، خالق اور مخلوق موجود ہوں گے اس وقت بے شمار زلزلے ہوں گے اور اعمال کی جزا پر مشتمل ہولناک عذاب ہوں گے تب ان کا وہ سب کچھ ظاہر ہوجائے گا جو کچھ وہ چھپاتے یا ظاہر کیا کرتے تھے۔