مَا كَانَ لِلَّهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ ۖ سُبْحَانَهُ ۚ إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ
اللہ کے لیے کبھی یہ بات نہیں ہوسکتی کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے۔ اس کے لیے پاکی ہو، (وہ کیوں مجبور ہونے لگا کہ کسی فانی ہستی کو اپنا بیٹا بنائے؟) اس کی شان تو یہ ہے کہ جب کوئی کام کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو بس حکم کرتا ہے کہ ہوجا، اور اس کا حکم کرنا ہی ہوجاتا ہے۔
﴿مَا كَانَ لِلَّـهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ ﴾ ” نہیں لائق اللہ کے کہ پکڑے وہ اولاد“ یعنی یہ بات اللہ تعالیٰ کے لائق ہی نہیں، کیونکہ یہ ایک امر محال ہے۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور قابل ستائش ہے وہ تمام مملکتوں کا مالک ہے۔ پس وہ اپنے بندوں اور غلاموں کو کیسے اولاد بنا سکتے ہیں؟ ﴿سُبْحَانَهُ ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر نقص اور بیٹے کی حاجت سے پاک اور مقدس ہے۔ ﴿إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا﴾ یعنی جب بھی اللہ تعالیٰ چھوٹے یا بڑے معاملے کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ معاملہ اس کے لئے مشکل اور ممتنع نہیں ہوتا۔ ﴿فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ﴾ ” تو وہ صرف یہی کہتا ہے کہ ہوجا، پس وہ ہوجاتا ہے“ جب اس کی قدرت اور مشیت تمام عالم علوی اور سفلی پر نافذ ہے تو اس کی اولاد کیسے ہوسکتی ہے؟ اور جب وہ کسی چیز کے وجود کا ارادہ کرتا ہے تو صرف اتنا کہتا ہے (كُن) ” ہوجا“ (فَيَكُونُ) ” تو وہ چیز ہوجاتی ہے۔“