سورة الكهف - آیت 98

قَالَ هَٰذَا رَحْمَةٌ مِّن رَّبِّي ۖ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ ۖ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ذوالقرنین نے (تکمیل کار کے بعد) کہا یہ (جو کچھ ہوا تو فی الحقیقت) میرے پروردگار کی مہربانی ہے جب میرے پروردگار کی فرمائی ہوئی بات ظہور میں آئے گی تو وہ اسے ڈھا کر ریزہ ریزہ کردے گا (مگر اس سے پہلے کوئی اسے ڈھا نہیں سکتا) اور میرے پروردگار کی فرمائی ہوئی بات سچے ہے، ٹلنے والی نہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اس نے کہا : ﴿هَـٰذَا رَحْمَةٌ مِّن رَّبِّي﴾ ” یہ ایک مہربانی ہے میرے رب کی“ یعنی یہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے۔ اور یہ صالح خلفاء کا حال ہے، جب اللہ تعالیٰ انہیں جلیل القدر نعمتوں سے نوازتا ہے تو ان کے شکر، اللہ تعالیٰ کی نعمت کے اقرار اور اعتراف میں اضافہ ہوجاتا ہے جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے۔۔۔. جب اتنی دور سے ملکہ سبا کا تخت ان کی خدمت میں حاضر کیا گیا تھا۔۔۔. اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اقرار کرتے ہوئے کہا تھا : ﴿ هَـٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ﴾ )النمل : 27 ؍40 (” یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ آیا میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کا مرتکب ہوتا ہوں۔“ اس کے برعکس جابر، متکبر اور زمین پر عام غالب لوگوں کو بڑی بڑی نعمتیں اور زیادہ متکبر اور مغرور بنا دیتی ہیں، جیسا کہ قارون نے، جس کو اللہ تعالیٰ نے اتنے بڑے خزانے عطا کئے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت اٹھاتی تھی، کہا تھا : ﴿إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ عِندِي﴾ )القصص : 28 ؍78) ” یہ دولت مجھے اس علم کی بنا پر دی گئی ہے جو مجھے حاصل ہے۔ “ ﴿فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي ﴾ ” پس جب میرے رب کا وعدہ آجائے گا“ یعنی یاجوج و ماجوج کے خروج کا وعدہ ﴿جَعَلَهُ دَكَّاءَ﴾ ” اس کو برابر کر دے گا۔“ یعنی اس مضبوط اور مستحکم دیوار کو گرا کر منہدم کردے گا اور وہ زمین کے ساتھ برابر ہوجائے گی۔ ﴿وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا﴾ ” اور میرے رب کا وعدہ سچا ہے۔ “