يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ ۖ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
اے پیغمبر لوگ تم سے پوچھتے ہیں جو مہینہ حرمت کا مہینہ سمجھا جاتا ہے اس میں لڑائی لڑنا کیسا ہے؟ ان سے کہہ دو اس میں لڑائی لڑنا بڑی برائی کی بات ہے۔ مگر (ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھو کہ) انسان کو اللہ کی راہ سے روکنا (یعنی ایمان اور خدا پرستی کی راہ اس پر بند کردینا) اور اس کا انکار کرنا اور مسجد حرام نہ جانے دینا، نیز مکہ سے وہاں کے بسنے والوں کو نکال دینا، اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ برائی ہے اور فتنہ (یعنی ظلم و فساد) قتل سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور (یاد رکھو) یہ لوگ تم سے برابر لڑتے ہی رہیں گے۔ یہاں تک کہ اگر بن پڑے تو تمہیں تمہارے دین سے برگشتہ کردیں۔ اور دیکھو تم میں سے جو شخص اپنے دین سے برگشتہ ہوجائے گا اور اسی حالت برگشتگی میں دنیا سے جائے گا تو یادرکھو اس کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جن کے تمام اعمال دنیا اور آخرت میں اکارت گئے اور ایسے ہی لوگ ہیں جو کا گروہ دوزخی گروہ ہے، ہمیشہ عذاب میں رہنے والا
جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ حرام مہینوں میں قتال کی حرمت اس آیت کے ذریعے سے منسوخ ہوگئی ہے جس میں حکم ہے کہ مشرکوں سے لڑو جہاں کہیں بھی ان کو پاؤ۔ (اشارہ ہے البقرہ ؍191، النساء ؍89، 91 کی طرف۔ مترجم) اور بعض مفسرین کی رائے ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں، کیونکہ مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے یہ آیت کریمہ قتال کے عام اور مطلق حکم کو مقید کرتی ہے۔ نیز اس لئے بھی کہ حرام مہینوں کی جملہ خوبیوں میں سے ایک خوبی، بلکہ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان مہینوں میں لڑائی حرام ہے۔ یہ حکم لڑائی کی ابتدا کرنے کے بارے میں ہے۔ رہی دفاعی جنگ تو یہ حرام مہینوں میں بھی جائز ہے جیسے حرم کے اندر دفاعی جنگ لڑنا جائز ہے۔ اس آیت کریمہ کے نازل ہونے کا سبب یہ ہے کہ عبداللہ حجش رضی اللہ عنہ کے سر یہ میں مسلمانوں نے عمرو بن الحضرمی کو قتل کردیا اور مشرکوں کا مال لوٹ لیا۔۔۔ روایات کے مطابق۔۔۔ یہ سریہ رجب کے مہینے میں واقع ہوا تھا، اس لئے مشرکین نے عار دلائی کہ مسلمانوں نے حرام مہینوں میں لڑائی کی ہے، حالانکہ اس عار دلانے میں وہ زیادتی کا ارتکاب کر رہے تھے، کیونکہ خود ان میں بہت سی برائیاں تھیں ان میں سے بعض برائیاں تو ایسی تھیں جو اس برائی سے بڑی تھیں جس پر مشرکین مسلمانوں کو عار دلا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان برائیوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾” اور اللہ کی راہ سے روکنا۔“ یعنی مشرکین کا لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے سے روکنا، اہل ایمان کو آزمائش میں ڈالنا، ان کو ان کے دین سے ہٹا دینے کی کوشش کرنا اور حرمت والے مہینے اور حرمت والے شہر میں کفر کا ارتکاب کرنا وغیرہ اور قباحت کے لئے تو مجرد کفر ہی کافی ہے۔۔۔ تب اس برائی کی شدت اور قباحت کا کیا حال ہوگا اگر اس کا ارتکاب حرمت والے مہینے اور حرمت والے شہر میں کیا جائے۔ ﴿ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ﴾” اور اہل مسجد کو اس میں سے نکال دینا“ یعنی مسجد حرام میں عبادت کرنے والوں کو مسجد سے نکالنا، اس سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ہیں کیونکہ وہ مسجد حرام میں عبادت کرنے کے مشرکوں سے زیادہ حق دار ہیں۔ وہی درحقیقت مسجد حرام کو آباد کرنے والے ہیں۔ پس مشرکین نے ان کو مسجد حرام سے نکال دیا اور ان کے لئے مسجد حرام تک پہنچنا ممکن نہ رہا۔ حالانکہ یہ گھر مکہ کے رہنے والوں اور باہر کے لوگوں کے لئے برابر حیثیت رکھتا ہے۔ ﴿ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۭ ﴾” خون ریزی سے بھی بڑھ کر ہے“ یعنی ان تمام برائیوں میں سے ہر ایک برائی کی قباحت حرام مہینوں میں قتل کی قباحت سے بڑھ کر ہے، تب ان کا کیا حال ہے جبکہ ان کے اندر مذکورہ تمام برائیاں ہی جمع ہیں؟ تو معلوم ہوا کہ یہ فاسق وفا جر لوگ ہیں اور اہل ایمان کو عار دلانے میں زیادتی سے کام لے رہے ہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ مشرکین اہل ایمان سے لڑتے رہیں گے اور اس لڑائی سے ان کی غرض اہل ایمان کو قتل کرنا یا ان کے اموال لوٹنا نہیں، بلکہ ان کی غرض و غایت صرف یہ ہے کہ اہل ایمان اپنا دین چھوڑ کر پھر کفر کی طرف لوٹ جائیں اور اس طرح وہ پھر سے جہنمیوں کے گروہ میں شامل ہوجائیں۔ پس وہ مسلمانوں کو اپنے دین سے پھیرنے کے لئے پوری قوت استعمال کر رہے ہیں اور امکان بھر اسی کوشش میں مصروف ہیں مگر اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت کی روشنی کو مکمل کر کے رہے گا خواہ کفار کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔ تمام کفار کا عام طور پر یہی رویہ ہے وہ دوسرے لوگوں سے ہمیشہ برسر پیکار رہیں گے جب تک کہ ان کو اپنے دین سے پھیر نہ دیں۔ خاص طور پر یہود ونصاریٰ نے اس مقصد کے لئے جماعتیں تشکیل دیں، اپنے داعی بھیجے، طبیب پھیلائے اور مدارس قائم کئے، تاکہ دوسری قوموں کو اپنے مذہب میں جذب کرلیں۔ ان کے اذہان میں ہر وہ شبہ ڈال دیں جو ان کے دین میں شک پیدا کرے مگر امید ہے کہ اللہ تعالیٰ جس نے اہل ایمان کو اسلام جیسی نعمت عطا کر کے احسان فرمایا اور اپنے اس دین قیم کو ان کے لئے چن لیا اور اپنے دین کو ان کے لئے مکمل کیا، ان پر اپنی نعمت کو قائم کرے گا، پوری طرح اس کا اتمام کرے گا اور ہر اس طاقت کو پسپا کر دے گا جو اس کے دین کی روشنی کو بجھانے کی کوشش کرے گی، وہ ان کی چالوں کو ان کے سینوں ہی میں کچل کر رکھ دے گا اور وہ اپنے دین کی مدد اور اپنے کلمہ کو ضرور بلند کرے گا اور سورۃ الانفال کی یہ آیت کریمہ جس طرح پہلے کفار پر صادق آتی تھی، اسی طرح یہ موجودہ کفار پر بھی پوری طرح صادق آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ ۗ وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ ﴾ (الانفال: 36؍8) ” بے شک وہ لوگ جو کافر ہیں وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کے لئے اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ وہ عنقریب ابھی اور مال خرچ کریں گے آخر کا ریہ مال خرچ کرنا ان کے لئے حسرت کا باعث بنے گا اور وہ مغلوب ہوں گے اور وہ لوگ جو کافر ہیں ان کو جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔ “ پھر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ جو کوئی مرتد ہو کر اسلام کو چھوڑ دے اور کفر کو اختیار کرے، ہمیشہ کفر پر قائم رہے حتیٰ کہ کفر کی حالت میں مر جائے ﴿فَاُولٰۗیِٕکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ۚ﴾” تو دنیا و آخرت میں ان کے تمام اعمال اکارت جائیں گے“ کیونکہ ان اعمال کی قبولیت کی شرط یعنی اسلام موجود نہیں ہے ﴿ وَاُولٰۗیِٕکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ﴾” اور یہی لوگ دوزخ والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے۔“ اس آیت کریمہ کا مفہوم دلالت کرتا ہے کہ جو کوئی مرتد ہونے کے بعد پھر دین اسلام کی طرف لوٹ آئے، تو اس کا عمل اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔ جو اس نے مرتد ہونے سے پہلے کیا تھا۔ اسی طرح جو کوئی گناہوں سے تائب ہوجاتا ہے تو اس کے سابقہ اعمال اس کی طرف لوٹ آتے ہیں۔