أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ
پھر کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ (محض ایمان کا زبانی دعوی کرکے) تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تو تمہیں وہ آزمائشیں پیش ہی نہیں آئی ہیں جو تم سے پہلے لوگوں کو پیش آچکی ہیں۔ ہر طرح کی سختیاں اور محنتیں انہیں پیش آئیں، شدتوں اور ہولناکیوں سے ان کے دل دہل گئے۔ یہاں تک کہ اللہ کا رسول اور جو لوگ ایمان لائے تھے پکار اٹھے اے نصر الٰہی ! تیرا وقت کب آئے گا؟ (تب اچانک پردۂ غیب چاک ہوا اور خدا کی نصرت یہ کہتی ہوئی نمودار ہوگئی) ہاں گھبراؤ نہیں خدا کی نصرت تم سے دور نہیں ہے
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ خوشحالی، بدحالی اور مشقت کے ذریعے سے ضرور اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے جیسے اس نے ان سے پہلے لوگوں کو آزمایا۔ یہ اس کی سنت جاریہ ہے اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوتا جو کوئی اس کے دین اور شریعت پر چلنے کا دعویٰ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ضرور آزماتا ہے۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر صبر کرتا ہے اور اس کی راہ میں پیش آنے والے مصائب اور تکالیف کی پرواہ نہیں کرتا تو وہ اپنے دعوے میں سچا ہے اور کامل ترین سعادت اور سیادت کی منزل کو پالے گا اور جو کوئی لوگوں کے فتنے کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی مانند سمجھ لیتا ہے بایں طور کہ لوگوں کی اذائیں اور تکالیف اس کو اپنے راستے سے ہٹا دیتی ہیں اور امتحان اور آزمائش اس کی منزل کھوٹی کردیتے ہیں، تو وہ اپنے دعویٰ ایمان میں جھوٹا ہے۔ کیونکہ ایمان محض تمناؤں اور مجرد دعووں کا نام نہیں، بلکہ اعمال اس کی تصدیق یا تکذیب کرتے ہیں۔ سابقہ امتوں کو بھی اسی راستے سے گزرنا پڑا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ ﴾” ان کو سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں۔“ یعنی وہ فقر و فاقہ کا شکار ہوئے اور ان پر مختلف بیماریوں نے حملہ کیا ﴿وَزُلْزِلُوْا ﴾” اور وہ ہلا دیے گئے۔“ یعنی قتل، جلا وطنی، مال لوٹ لینے اور عزیز و اقارب کو قتل کی دھمکی کے خوف اور دیگر نقصانات کے ذریعے سے ان کو ہلا ڈالا گیا، اس حالت نے ان کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد پر یقین رکھنے کے باوجود اس کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہوگئے یہاں تک کہ معاملے کی شدت اور تنگی کی بنا پر ﴿’ حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ۭ﴾’’ رسول اور اس کے مومن ساتھی بھی پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ “ چونکہ ہر شدت کے بعد آسانی اور تنگی کے بعد فراخی ہوتی ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ﴾” آگاہ رہو کہ اللہ کی مدد قریب ہے“ پس ہر وہ شخص جو حق پر قائم رہتا ہے اس کا اسی طرح امتحان لیا جاتا ہے۔ جب بندہ مومن پر سختیاں اور صعوبتیں یلغار کرتی ہیں اور وہ ثابت قدمی سے ان پر صبر کرتا ہے، تب یہ امتحان اس کے حق میں انعام اور مشقتیں راحتوں میں بدل جاتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس کو دشمنوں کے خلاف فتح و نصرت سے نوازا جاتا ہے اور وہ قلب کی تمام بیماریوں سے شفایاب ہوجاتا ہے۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی نظیر ہے ﴿ أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّـهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ ﴾(آل عمران : 3؍ 142) ” کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ اس نے تم میں جہاد کرنے والوں کو آزما کر معلوم ہی نہیں کیا اور نیز یہ کہ وہ صبر کرنے والوں کو معلوم کرے۔“ اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی نظیر ہے ﴿ الم أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّـهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ ﴾ (العنکبوت: 29؍ 1۔3) ” کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کے صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لائے ان کو چھوڑ دیا جائے گا اور ان کو آزمایا نہیں جائے گا، یقیناً ہم نے ان لوگوں کو بھی آزمایا ہے جو ان سے پہلے تھے اللہ ان کو ضرور آزما کر معلوم کرے گا جو اپنے دعویٰ ایمان میں سچے ہیں اور ان کو بھی جو جھوٹے ہیں۔“ پس امتحان کے وقت ہی انسان کی عزت یا تحقیر ہوتی ہے۔