سورة الكهف - آیت 51

مَّا أَشْهَدتُّهُمْ خَلْقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَا خَلْقَ أَنفُسِهِمْ وَمَا كُنتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّينَ عَضُدًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

میں نے انہیں اپنے ساتھ شریک نہیں کیا تھا جب آسمان و زمین کو پیدا کیا اور نہ اس وقت وہ شریک ہوئے جب خود انہیں پیدا کیا (اور جب وہ خود مخلوق ہیں تو اپنی خلقت کے وقت کیسے موجود ہوسکتے تھے؟) میں ایسا نہ تھا کہ گمراہ کرنے والوں کو اپنا دست و بازو بناتا۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے :” میں نے شیاطین (اور ان گمراہی پھیلانے والوں) کو گواہ نہیں بنایا“ ﴿خَلْقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَا خَلْقَ أَنفُسِهِمْ ﴾ ” آسمانوں، زمین اور ان کی اپنی تخلیق پر۔“ یعنی میں نے ان کی پیدائش پر ان کو حاضر کیا نہ ان سے مشورہ لیا پھر وہ ان میں سے کسی چیز کے خالق کیسے کہلا سکتے ہیں؟ بلکہ اللہ تعالیٰ تخلیق و تدبیر اور حکمت و تقدیر میں یکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی تمام اشیاء کاخالق ہے اور وہی اپنی حکمت سے ان میں تصرف کرتا ہے پس کیسے شیاطین کو اللہ کے شریک ٹھہرایا جاتا ہے ان کو والی و مددگار بنایا جاتا ہے اور ان کی اسی طرح اطاعت کی جاتی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی کی جاتی ہے، حالانکہ انہوں نے کچھ پیدا کیا ہے نہ کائنات کی پیدائش پر وہ حاضر تھے اور نہ کائنات کی پیدائش پر اللہ تعالیٰ کے معاون و مددگار تھے؟ اسی لئے فرمایا : ﴿ وَمَا كُنتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّينَ عَضُدًا ﴾ ” اور نہیں ہوں میں کہ گمراہ کرنے والوں کو مددگار بناؤں“ یعنی اللہ تعالیٰ کے کسی کام میں معاونین کا ہونا، اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں اور نہ یہ مناسب ہے کہ وہ تدبیر کائنات کا کچھ حصہ ان کے سپرد کر دے کیونکہ وہ تو مخلوق کو گمراہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے رب کی عداوت پر کمربستہ رہتے ہیں، اس لئے وہ اسی لائق ہیں کہ وہ ان کو دور رکھے اور اپنے قریب نہ آنے دے۔