وَأُحِيطَ بِثَمَرِهِ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلَىٰ مَا أَنفَقَ فِيهَا وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا وَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا
اور پھر (دیکھو) ایسا ہی ہوا کہ اس کی دولت (بربادی کے) گھیرے میں آگئی، وہ ہاتھ مل مل کر افسوس کرنے لگا کہ ان باغوں کی درستی پر میں نے کیا کچھ خرچ کیا تھا ( وہ سب برباد گیا) اور باغوں کا یہ حال ہوا کہ ٹٹیاں گر کے زمین کے برابر ہوگئیں، اب وہ کہتا ہے کہ اے کاش میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا۔
پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی دعا قبول فرمائی۔ ﴿ وَأُحِيطَ بِثَمَرِهِ ﴾ ” اور سمیٹ لیا گیا اس کا سارا پھل“ یعنی اس کے پھل پر عذاب نازل ہوگیا، اس نے اس کا احاطہ کر کے اس کو تباہ کردیا اور اس میں سے کچھ بھی باقی نہ چھوڑا۔ پھل کا احاطہ کرنا اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کے باغ کے تمام درخت، ان کا تمام پھل اور زمین میں کاشت کی ہوئی تمام فصل سب کچھ تبا ہوگیا۔ پس وہ بے حد نادم ہوا اور اسے سخت افسوس ہوا۔ ﴿فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلَىٰ مَا أَنفَقَ فِيهَا﴾ ” پس رہ گیا وہ اپنے ہاتھوں کو پھیرتا ہوا، اس مال پر جو اس نے اس باغ میں لگایا تھا“ یعنی اس نے اپنے باغ پر جو دنیاوی اخراجات کئے تھے وہ سب ضائع ہوگئے اور وہ کف افسوس ملتا رہ گیا اور اس کا کوئی عوض باقی نہ رہا، نیز وہ اپنے شرک اور اپنی بدی پر بھی پشیمان رہا، اس لئے وہ کہنے لگا : ﴿وَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا ﴾ ” کاش میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا۔ “