سورة الكهف - آیت 29

وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ۚ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۚ وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ ۚ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور کہہ دو یہ سچائی تمہارے پروردگار کی جانب سے ہے، جو چاہے مانے جو چاہے نہ مانے ہم نے ظالموں کے لیے ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی چادریں چاروں طرف سے انہیں گھیر لیں گے، وہ (پانی کے لیے) فریاد کریں گے تو ان کی فریاد کے جواب میں ایسا پانی ملے گا جیسے پگھلا ہوا سیسہ ہو، وہ ان کے منہ (گرمی سے) پکا دے گا، تو دیکھو پینے کی کیا ہی بری چیز انہیں ملی اور بیٹھنے کی کیا ہی بری جگہ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! لوگوں سے کہہ دیجیے کہ یہ تمہارے رب کی طرف سے حق ہے، یعنی ضلالت میں سے ہدایت، گمراہی میں سے راہ راست اور اہل شقاوت و اہل سعادت کی صفات واضح ہوگئی ہیں اور یہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے حق کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پر واضح کردیا اور جب حق واضح ہوگیا تو اس میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہا۔ ﴿  فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ۚ ﴾ ” پھر جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے“ یعنی دو راستوں میں سے ایک راستے کو اختیار کیے بغیر چارہ نہیں۔ جس پر بندہ تو فیق اور عدم توفیق کے مطابق گامزن ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بندے کو ارادے کی آزادی عطا کی ہے، اس آزادی کی بنا پر بندہ ایمان لانے، کفر کرنے اور خیرو شر کے ارتکاب کی قدرت رکھتا ہے۔ پس جو کوئی ایمان لے آتا ہے اسے حق و صواب کی توفیق عطا ہوتی ہے اور جو کوئی کفر کرتا ہے اس پر حجت قائم ہوجاتی ہے۔ اسے ایمان پر مجبور نہیں کیا جاتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :۔ ﴿لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ ﴾ (البقرہ :2؍256)’’دین میں کوئی جبر نہیں، ہدایت گمراہی سے واضح ہوگئی ہے۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے دونوں فریقوں کے انجام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ ﴾ ” بے شک ہم نے ظالموں کے لیے تیار کی ہے“ یعنی جنہوں نے کفر، فسق اور معصیت کے ذریعے سے ظلم کا ارتکاب کیا ﴿  نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۚ ﴾ ” آگ، جن کو گھیر رہی ہیں اس کی قنا تیں“ یعنی آگ کی بڑی بڑی دیواریں ہیں جنہوں نے ان ظالموں کو گھیر رکھا ہے۔ وہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ ہوگا نہ نجات کا کوئی ذریعہ، وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔ ﴿ وَإِن يَسْتَغِيثُوا ﴾ ” اور اگر وہ فریاد کریں گے“ یعنی اگر وہ اپنی سخت پیاس بجھانے کے لیے پانی مانگیں گے ﴿ يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ ﴾ ” تو ملے گا ان کو پانی، جیسے پیپ“ یعنی انہیں پگھلے ہوئے سیسے یا تیل کی تلچھٹ جیسا پانی پلایا جائے گا۔ ﴿ يَشْوِي الْوُجُوهَ  ﴾ ” جو چہروں کو بھون ڈالے گا۔“ یعنی جو شدت حرارت کی وجہ سے چہروں کو بھون کر رکھ دے گا، تب انتڑیوں اور پیٹ کا کیا حال ہوگا؟ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ  وَلَهُم مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ﴾ )الحج :22؍20،21)’’اس گرم پانی سے ان کے پیٹ اور ان کی کھالیں گل جائیں گی اور ان کے لیے لوہے کے گرز ہوں گے۔“ ﴿بِئْسَ الشَّرَابُ ﴾ ” کیا برا پینا ہے“ وہ جس سے پیاس بجھانا اور پیاس کے اس عذاب کو دور کرنا مقصود ہوگا مگر اس کے برعکس ان کے عذاب میں اضافہ اور ان کی عقوبت میں شدت ہوگی۔ ﴿  وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا ﴾ ” اور کیا بری (یہ آگ) آرام گاہے ” یہ آگ کے احوال کی مذمت ہے یعنی یہ آرام کی بدترین جگہ ہوگی۔ کیونکہ یہاں آرام نہیں بلکہ عذاب عظیم ہوگا جو بہت ہی تکلیف دہ ہوگا۔ گھڑی بھر کے لیے بھی یہ عذاب ان سے دور نہیں ہوگا اور وہ سخت مایوسی کے عالم میں ہوں گے۔ وہ ہر بھلائی سے مایوس ہوجائیں گے جس طرح انہوں نے مہربان اللہ کو فراموش کردیا وہ بھی انہیں، فراموش کر دے گا۔