سورة الكهف - آیت 27

وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَبِّكَ ۖ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) تیرے پروردگار کی کتاب جو تجھ پر وحی کی گئی ہے اس کی تلاوت میں لگا رہ، اللہ کی باتیں کوئی بدل نہیں سکتا اور تجھے اس کے سوا کوئی پناہ کا سہارا ملنے والا نہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

تلاوت سے مراد اتباع کرنا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جو وحی بھیجی ہے اس کے معانی کی معرفت اور ان کا فہم حاصل کر کے، اس کی دی ہوئی خبروں کی تصدیق اور اس کے اوامر نواہی کی تعمیل کر کے اس کی اتباع کیجیے کیونکہ یہ بہت ہی جلیل القدر کتاب ہے جس کی باتوں کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا، ان کلمات کے صدق و عدل اور حسن میں ہر غایت و انتہا سے بڑھ جانے کی وجہ سے، ان میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا : ﴿وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا ﴾ (الانعام 6؍115)” آپ کے رب کی بات صدق و عدل کے اعتبار سے کامل ہے۔“ پس اپنے کمال کی وجہ سے ان باتوں میں تغیر و تبدل محال ہے اگر اللہ تعالیٰ کے کلمات ناقص ہوتے تو ان میں تغیر و تبدل واقع ہوسکتا۔ اس میں قرآن کریم کی عظمت کا اظہار ہے اور اسی ضمن میں قرآن کریم کی طرف توجہ کرنے کی ترغیب ہے۔ ﴿ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا ﴾ ” اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے۔“ یعنی آپ کے رب کے سوا آپ کو کہیں کوئی ٹھکانا نہیں ملے گا جہاں آپ چھپ سکیں، نہ پناہ گاہ ملے گی جہاں پناہ لے سکیں۔ پس جب یہ حقیقت متعین ہوگئی کہ تمام امور میں وہی ملجاو ماویٰ ہے تو یہ بات بھی متعین ہوگئی کہ وہی الٰہ ہے خوشحالی اور بدحالی میں اسی کی طرف رغبت کی جائے، لوگ اپنے تمام احوال میں اسی کے محتاج ہیں اور اپنے تمام مطالب میں اسی سے سوال کیا جائے۔