سورة الكهف - آیت 14

وَرَبَطْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِهِ إِلَٰهًا ۖ لَّقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ان کے دلوں کی (صبر و استقامت میں) بندش کردی، وہ جب (راہ حق میں) کھڑے ہوئے تو انہوں نے (صاف صاف) کہہ دیا ہمارا پروردگار تو وہی ہے جو آسمان و زمین کا پروردگار ہے، ہم اس کے سوا کسی اور معبود کو پکارنے والے نہیں، اگر ہم ایسا کریں تو یہ بڑی ہی بے جا بات ہوگی۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَرَبَطْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ﴾” اور گرہ لگا دی ہم نے ان کے دلوں پر“ یعنی ہم نے انہیں صبر عطا کیا اور ان کو ثابت قدم رکھا وار ان کو اس انتہائی پریشان کن حالت میں اطمینان قلب سے نوازا۔ یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے ان کو ایمان اور ہدایت کی توفیق عطا کی اور ان کو صبر و ثبات اور طمانیت قلب سے نوازا۔ ﴿ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ” جب وہ کھڑے ہوئے، پس انہوں نے کہا ہمارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے“ یعنی جس نے ہمیں پیدا کیا، ہماری پرورش کی اور جو ہمیں رزق عطا کرتا ہے اور ہماری تدبیر کرتا ہے وہی تمام کائنات کو پیدا کرنے والا ہے۔ وہ ان عظیم مخلوقات کو پیدا کرنے میں منفرد ہے۔ یہ بت اور خود ساختہ معبود اس کائنات کے خالق نہیں ہیں جو کسی چیز کو پیدا کرسکتے ہیں نہ رزق دے سکتے ہیں، وہ کسی نفع و نقصان کے مالک ہیں نہ موت وحیات کے اور نہ موت کے بعد دوبارہ اٹھانے پر قادر ہیں۔ پس انہوں نے توحید ربوبیت سے توحید الوہیت پر استدلال کیا اور کہا : ﴿لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِهِ إِلَـٰهًا ﴾ ” ہم اس کے سوا کسی کو معبود نہ پکاریں گے۔“ یعنی ہم تمام مخلوقات میں سے کسی کو الٰہ نہیں بنائیں گے۔ ﴿لَّقَدْ قُلْنَا إِذًا﴾ ” تحقیق کہی ہم نے بات اس وقت“ یعنی یہ جان لینے کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ ہمارا پروردگار اور معبود حقیقی ہے اس کے سوا کسی اور کے لیے عبادت جائز ہے نہ مناسب ہے ﴿شَطَطًا﴾ ” عقل سے دور“ یعنی حق و صواب سے دور۔ پس انہوں نے توحید ربوبیت اور توحید الوہیت کے اقرار اور التزام کو جمع کیا اور واضح کردیا کہ صرف یہی حق ہے اس کے سوا سب کچھ باطل ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں اپنے رب کی مکمل معرفت حاصل تھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں ہدایت عطا کی گئی تھی۔