وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا
اور کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے قتل کرنا اللہ نے حرام ٹھہرا دیا ہے، جو کوئی ظلم سے مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قصاص کے مطالبہ کا) اختیار دے دے یا، پس چاہیے کہ خونریزی میں زیادتی نہ کرے (یعنی حق سے زیادہ بدلہ لینے کا قصد نہ کرے) وہ (حد کے اندر رہنے میں) فتح مند ہے۔
اس آیت کریمہ کا حکم ہر اس جان کو شامل ہے جس کے قتل کو ﴿حَرَّمَ اللّٰـهُ ﴾ ’’اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے‘‘ وہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام اور مسلم ہو یا کافر معاہد ﴿إِلَّا بِالْحَقِّ﴾ ’’سوائے اس (قتل)کے جو برحق ہو‘‘ مثلاً مقتول کے قصاص میں قاتل کو قتل کرنا، شادی شدہ زانی کو قتل کرنا، مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہونے والے مرتد کو قتل کرنا اور باغی کو بغاو ت کی حالت میں قتل کرنا جبکہ اس کو قتل کئے بغیر بغاوت پر قابو نہ پایا جاسکتا ہو۔ ﴿وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا ﴾ ’’ اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے‘‘ یعنی جسے ناحق قتل کیا گیا ہو۔ ﴿ فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ﴾’’تو کی ہم نے اس کے ولی کے لئے‘‘ یہاں’’ولی‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جو مقتول کے ورثاء اور عصبہ میں سے اس کے سب سے زیادہ قریب ہو۔ ﴿سُلْطَانًا﴾ ’’دلیل‘‘ یعنی ہم نے مقتول کے ولی کے لئے قاتل سے قصاص لینے کی ظاہری دلیل فراہم کردی، نیز اسے قدرتی طور پر بھی قاتل پر اختیار عطا کردیا ہے مگر یہ اس وقت ہے جب قصاص کی موجب تمام شرائط یکجاء ہوں، مثلاً ارادہ اور تعدی کے ساتھ قتل کرنا اور مقتول اور قاتل میں برابری وغیرہ۔ ﴿فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ﴾ ’’پس وہ قتل (کے قصاص)میں زیادتی نہ کرے۔‘‘ یعنی ولی قاتل کے قتل میں اسراف سے کام نہ لے۔ یہاں ’’اسراف‘‘ سے مراد یہ ہے کہ مقتول کا ولی قاتل کو قتل کرنے میں حد سے تجاوز کرے۔ (اس اسراف کی تین صورتیں ہیں۔) (1) ولی قاتل کا مثلہ کرے۔(یعنی اسے ایذا دے دے کر مارے، ناک کاٹے، کان کاٹے، وغیرہ وغیرہ) (2) ولی قاتل کو کسی ایسی چیز کے ذریعے سے قتل کرے جس کے ذریعے سے مقتول کو قتل نہ کیا گیا ہو۔ (3) قاتل کو چھوڑ کر کسی اور کو قتل کردیا جائے۔ اس آیت کریمہ میں دلیل ہے کہ صرف ولی کو قصاص لینے کا حق ہے اور ولی کی اجازت کے بغیر قصاص نہیں لیا جاسکتا۔ اگر ولی قاتل کو معاف کر دے تو قصاص ساقط ہوجاتا ہے، نیز اس میں اس امر کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ قاتل اور اس کے مددگاروں کے مقابلے میں مقتول کے ولی کی مدد کرتا ہے۔