وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا
اور (دیکھو) جو لوگ تمہارے قرابت دار ہیں، جو مسکین ہیں، جو (بے یارومددگار) مسافر ہیں، ان سب کا تم پر حق ہے ان کا حق ادا کرتے رہو اور مال و دولت کو بے محل خرچ نہ کرو جیسا کہ بے محل خرچ کرنا ہوتا ہے۔
﴿وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ﴾ ’’اور دے رشتے دار کو اس کا حق ‘‘ یعنی رشتہ دار کو واجب و مسنون حسن سلوک اور اکرام و تکریم میں سے اس کا حق ادا کرو اور یہ حق احوال، زبان و مکان، ضرورت اور عدم ضرورت اور اقارب میں تفاوت کے مطابق متفاوت ہوتا ہے۔ ﴿وَالْمِسْكِينَ﴾ ’’اور مسکین کو‘‘ یعنی زکوٰۃ وغیرہ میں سے مسکین کو اس کا حق ادا کرو تاکہ اس کی مسکینی دور ہوجائے۔ ﴿وَابْنَ السَّبِيلِ﴾ ’’اور مسافر کو‘‘ اس سے مراد وہ غریب الوطن شخص ہے۔ جو اپنے شہر سے دور پھنس کر رہ گیا ہو۔ ﴿ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا﴾ ’’اور بے جامت اڑا‘‘ پس مال اس طریقے سے عطا کیا جائے کہ عطا کرنے والے کو نقصان پہنچے نہ اس مقدار سے زائد ہو جو دی جانی چاہیے ورنہ یہ اسراف و تبذیر کے زمرے میں آئے گا اور اس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے اور بتلایا ہے کہ