ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
پھر (یہ بات بھی ضروری ہے کہ) جس جگہ (تک جا کر) لوگ انبوہ در لوٹتے ہیں تم (اہل مکہ) سے بھی وہیں سے لوٹو اور اللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرو۔ بلاشبہ اللہ (خطائیں) بخشنے والا اور (ہرحال مٰں) رحمت رکھنے والا ہے
﴿ ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ﴾” پھر تم وہاں سے لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں“ یعنی مزدلفہ سے اور یہ وہ عمل ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر اب تک چلا آرہا ہے اور اس افاضہ یعنی واپسی کا مقصد ان کے ہاں معروف تھا اور وہ ہے رمی جمار، قربانیوں کو ذبح کرنا، طواف، سعی، تشریق کی راتوں میں منیٰ میں شب بسری اور باقی مناسک کی تکمیل چونکہ اس افاضہ کا مقصد وہ ہے جس کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ مذکورہ امور حج کے آخری مناسک ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان سے فارغ ہو کر استغفار اور کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے، اس لئے کہ استغفار کا مقصد یہ ہے کہ عبادات کی ادائیگی میں بندے کی طرف سے جو خلل اور کوتاہی واقع ہوئی ہے استغفار سے اس کی تلافی ہوجائے اور اللہ کا ذکر یہ اللہ کا اس انعام پر شکر ہے جو اس نے عظیم عبادت اور بھاری احسان کی توفیق سے نواز کر کیا۔ بندہ مومن کے لئے مناسب بھی یہی ہے کہ جب وہ اپنی عبادت سے فارغ ہو تو اپنی تقصیر اور کوتاہی پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے اور عبادت کی توفیق پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے، نہ کہ اس شخص کی مانند ہو جو یہ سمجھتا ہے کہ اس نے عبادت کی تکمیل کر کے رب پر احسان کیا ہے اور اس عبادت نے اس کے مقام پر و مرتبہ کو بہت بلند کردیا ہے۔ یہ رویہ یقیناً اللہ کی ناراضی کا باعث اور اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے فعل (عبادت) کو ٹھکرا دیا جائے جیسے عبادت کی پہلی صورت اس بات کی مستحق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ حاصل کرے اور بندے کو دوسرے اعمال خیر کی توفیق عطا ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے احوال کی خبر دی اور آگاہ فرمایا کہ تمام مخلوق اپنے اپنے مطالبات کا سوال کرتی ہے اور جو چیز ان کے لئے ضرر رساں ہے اس سے بچنے کی دعا مانگتی ہے، البتہ ان کے مقاصد مختلف ہوتے ہیں۔