سورة النحل - آیت 126

وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ ۖ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور مخالفوں کی سختی کے جواب میں سختی کرو تو چاہیے کہ ویسی ہی اور اتنی ہی کرو جیسی تمہارے ساتھ کی گئی ہے، اور اگر تم نے صبر کیا (یعنی جھیل گئے اور سختی کا جواب سختی سے نہیں دیا) تو بلاشبہ صبر کرنے والوں کے لیے صبر ہی بہتر ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ عدل کو مباح کرتے ہوئے فضل اور احسان کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿وَإِنْ عَاقَبْتُمْ﴾ ” اور اگر تم بدلہ لو“ اگر تم اس شخص کا مواخذہ کرنا چاہو جس نے تمہیں قول و فعل کے ذریعے سے برے سلوک کا نشانہ بنایا ہے ﴿فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ ﴾ ” تو بدلہ لو اسی قدر جس قدر کہ تم کو تکلیف پہنچائی گئی“ یعنی تمہارے ساتھ جو معاملہ کیا گیا ہے، بدلہ لیتے وقت تمہاری طرف سے اس میں زیادتی نہ ہو۔ ﴿ وَلَئِن صَبَرْتُمْ﴾ ” اور اگر تم صبر کرلو“ یعنی بدلہ نہ لو اور ان کا جرم معاف کر دو تو ﴿لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ﴾ ” وہ صبر کرنے والوں کے لئے بہتر ہے۔“ یعنی یہ بدلہ لینے سے بہتر ہے اور جو اجر و ثواب اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ تمہارے لئے بہتر اور انجام کے اعتبار سے اچھا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللّٰـهِ﴾ (الشوریٰ::42؍40) ” جو معاف کر کے معاملے کی اصلاح کر دے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔“ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت پر صبر کریں اور اس پر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں اور نفس پر بھروسہ نہ کریں ۔